عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں؟

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں

صدائے مولف عملیات کی عصری صورتیں

سلف صالحین کے ہاں عملیات کا کوئی مستقل شعبہ رائج نہیں تھا، ضرورت کے مطابق دم کرنا یا تعویذ کرنا تو بالکل نامانوس نہیں تھا لیکن اس کو مستقل حیثیت حاصل نہ تھی، ماضی قریب تک یہی صورت حال برقرار رہی، پھر مختلف عناصر کی وجہ سے اس کام نے مستقل پیشہ کی حیثیت اختیار کی ہے ، اس لئے اس سے متعلقہ احکام جاننے کی بھی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں جو کہ عملیات سے متعلق چند اوراق آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ اس فکر کے نتیجے میں تیار ہوئے ہیں کہ دین اسلام سے متعلق تمام شعبوں میں دین کے احکام و تعلیمات زندہ ہو جائیں۔

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں تحریر تیار ہو جانے کے بعد نظر ثانی کے لئے حضرت مولانا محسن کمال صاحب زید مجد ہم کی خدمات حاصل کی گئیں ، وہ ایک با استعداد اور جید عالم دین بھی ہے اور ساتھ نیک صالح عامل بھی۔ اس کے بعد اپنے دوست مولانا محمد افضال صاحب زید مجدہ اور عزیزم مولانا عادل رضا صاحب زید مجدہ نے بھی نظر ثانی فرمائی ۔ ان حضرات کے نظر ثانی کے نتیجے میں متعدد اصلاحات سامنے آگئیں جن پر ان حضرات کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو دونوں جہانوں کی سعادت سے بہرہ ور فرمائیں۔

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں تحریر کی تیاری سے پہلے جب پہلے پہل اس موضوع پر کام کرنے کا داعیہ پیدا ہوا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک اپنی کمزور جستجو کی حد تک کافی تلاش کیا کہ اس موضوع پر اگر کوئی ایسا جامع علمی کام ہوا ہو جس میں اس میدان سے وابستہ فقہی مسائل کو حل کیا گیا ہو ، لیکن ہنوز ایسی کوئی کتاب نظر سے نہیں گزری۔ اس موضوع پر چند رسالے سامنے آئے لیکن ان میں زیادہ تر تعویذ کے جائز ہونے یا نہ ہونے پر ہی گفتگو فرمائی گئی ہے ، حضرت مولانا مفتی محمد زید ندوی صاحب نے ” عملیات و تعویذات اور اس کے شرعی احکام ” کے نام سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے کچھ افادات جمع فرمائے ہیں جو ہند و پاک کے متعدد کتب خانوں سے شائع ہوا ہے، یہ دو سو صفحات پر مشتمل ہے لیکن چونکہ مستقل کتاب نہیں ہے ، اس لئے اس سے موضوع کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ اس لئے جب کوئی ایسی جامع کتاب سامنے نہیں آئی تو خود ہی لکھنا شروع کیا۔ چونکہ یہ خالص فقہی نوعیت کا کام ہے جو گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے اور ایک سے زیادہ پہلوؤں کا حامل ہے، اس لئے اگر اس تحریر میں کسی قسم کا کوئی سقم سامنے آئے تو براہ کرم مطلع فرمائیں۔

ناکارہ عبید الرحمان، مردان ۲۶ محرم الحرام ۵۴۴

 

باب اول: عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں

فصل اول: بنیادی شرعی ضوابط:

پہلا ضابطہ : عملیات کی عصری صورتیں

کسی چیز کا فائدہ مند ہونا یا باعث صحت و شفاء ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ شرعی دلائل ہی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔ عملیات سے متعلقہ مختلف شعبوں مثلآًدم، تعویذ، جھاڑ پھونک، نقوش لکھنا، منتر پڑھنا اور ان جیسی بہت کی چیزیں ایسی ہیں جو بعض اوقات فائدہ مند ثابت ہو جاتی ہیں اور جن مقاصد کے لئے ان چیزوں کو کام میں لایا جاتا ہے وہ مقصود بھی بسا اوقات پورا ہو جاتا ہے ، اسی طرح نیک فالی اور بد فالی کی متعدد شکلیں بھی کبھی کبھی واقع کے بالکل مطابق ثابت ہوتی ہیں، ستاروں اور ان کے حرکات و سکنات کے ماہرین کی بعض پیش گوئیاں بھی کچی دکھائی دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصول طب

ان جیسے واقعات سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ امور شرعاً مباح بھی ہیں کیونکہ اگر مباح نہ ہوتے تو ان کا اثر ظاہر نہ ہوتا۔ یہ بالکل غلط ہے ، یہ شریعت ہی کا منصب اور اسی کا حق ہے کہ کسی چیز کو جائز یا نا جائز ٹھہرائے اور اس کا فیصلہ شرعی دلائل ہی سے ہو سکتا ہے۔ کسی چیز کا جزوی لحاظ سے نتیجہ خیز ، فائدہ مند یا باعث صحت و شفاء ہونے سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ وہ ضرور جائز بھی ہو۔ چنانچہ شراب میں بھی متعدد فوائد ہیں اور قرآن کریم میں اس کو ذکر بھی کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

“سنن ابی داؤد ” اور ” مسند احمد ” وغیرہ کتب حدیث میں حضرت ابن مسعور رضی اللہ عنہ کی ایک ایسی صحیح حدیث نقل کی گئی ہے جس سے یہ بات بالکل

بے غبار ہو جاتی ہے، چنانچہ “سنن ابی داؤد ” میں ہے:

” عن عبد الله قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم – يقولُ: “إِنَّ الرُّقَى وَالتَمائِمَ والتَّوَلَةَ شِرْكٌ” قالت: قلتُ: لم تقول هذا؟ والله لقد كانت عَيني تَقْذِفُ وكنتُ أختلِفُ إلى فُلانٍ اليهودي يرقيني، فإذا رقَانِي سَكَنَتْ، فقال عبد الله : إنما ذاك عمل الشيطانِ كان يَنْخَسُها بيده، فإذا رقاها كَفَّ عنها، إنما كانَ يَكْفِيكِ أن تقولي كما كان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول: “أذهب البأس ربَّ النَّاسِ، اشْفِ أنت الشافي، لا شِفَاءَ إِلا شِفَاؤُك، شفاءً لا يُغَادِرُ سقماً”.

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله من علیم سے فرماتے ہوئے سنا: بیشک دم، تعویذ کرنا اور تولہ شرک ہے، آپ کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے عرض کیا تم یہ کیوں کہتے ہو؟ اللہ کی قسم میری آنکھ دکھتی تھی، تو میں فلاں یہودی کی پاس جاتی اور وہ مجھ پر دم کرتا جب وہ دم کر لیتا تو میری آنکھ ٹھیک ہو جاتی، تو عبد اللہ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ایک چال ہے جو اپنے ہاتھ سے ا سنن أبي داود تے اکار لودر باب تعلیق انتمائم ، ج 6 ص 31 رقم الحديث 3883 اس کو جھنجوڑتا ہے ، جب وہ دم کر لیتا تو شیطان اس سے رک جاتا ہے ، آپ کے لئے رسول اللہ لی تعلیم کی بتائی ہوئی دعا کافی ہے: اے اللہ اس تکلیف کو دور فرما، شفاء دے مجھے تو شفاء دینا والا ہے ، آپ کے شفاء کے علاوہ اور کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہیں چھوڑتا۔

دوسرا ضابطہ : عملیات کی عصری صورتیں

کسی عمل کے جائز ہونے کے لئے صرف مقصود کا اچھا ہو نا کافی نہیں ہے بلکہ عملی طریق کار کا شرعی دلائل کی روشنی میں جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ بسا اوقات کسی کام کا مقصود و ہدف تو جائز بلکہ مستحسن ہوتا ہے لیکن عملی طور پر اس کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے ، اس میں کوئی شرعی سقم پایا جاتا ہے ، ایسی صورت میں صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ چونکہ میری نیت یا میرا مقصد ایک جائز کام کو حاصل کرنا ہے ، اس لئے یہ کام جائز ہے۔ بلکہ جس طرح مقصود کا شرعی نقطہ نظر سے جائز و مباح ہونا ضروری ہے ورنہ ناجائز مقصود کا گناہ لازم آتا ہے اگر چہ طریقہ کار جائز بھی ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت و قصد کے ساتھ کوئی ایسا مشروب ہے جو شراب نہ ہو، بلکہ مباح ہو تو وہ اپنی نیت کی وجہ سے گنہ گار ہو گا۔ یوں ہی مقصود کے حاصل کرنے کے لئے جو ذرائع اور وسائل اختیار کئے جاتے ہیں، ان کا بھی شرعی ہدایات و احکام کے مطابق ہونا ضروری ہے اور اس میں اگر کوئی شرعی سقم پایا جائے تو گناہ سر آئے گا، مثال کے طور پر کوئی شخص امت کی عددی کثرت بڑھانے کے لئے کوئی ناجائز راستہ اختیار کرتا ہے تو مقصود کتنا ہی صالح و خالص کیوں نہ ہو ، گناہ ضرور ہو گا۔

تیسرا ضابطہ عملیات کی عصری صورتیں

مقید اور مطلق کام کے احکام یکساں نہیں ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے بعض چیزوں کی مشروط طور پر اجازت یا ممانعت وارد ہوتی ہے تو اپنی طرف سے اس میں توسیع کرنا درست نہیں ہے ، توسیع کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس مشروط حکم کو ان شرائط کے بغیر بھی برقرار رکھا جائے ، چنانچہ وہ شرائط موجود نہ بھی ہو تو بھی جواز یا عدم جواز کا حکم باقی رکھا جائے۔ مثال کے طور پر دم یا تعویذ کرنے کی شرعاً اجازت ہے لیکن یہ اجازت چند شرائط کے ساتھ مقید ہے، ان شرائط کا اچھی طرح لحاظ رکھے بغیر ہر دم یا تعویذ کو جائز کہنا غلط ہے ، یوں ہی تعویذ کی بعض صورتوں کو احادیث مبارکہ میں شرک قرار دیا گیا ہے اور ان کی مذمت کی گئی ہے لیکن یہ ممانعت و مذمت چند باتوں کے ساتھ مقید ہے ، ان باتوں کی رعایت رکھے بغیر ہر تعویذ کو شرک سمجھنا باند موم و ممنوع خیال کرنا بھی درست نہیں ہے۔

چوتھا ضابطہ عملیات کی عصری صورتیں

قرآن و حدیث کے نزول کا اصل مقصود دین حق کی تعلیمات و ہدایات بتانا، انسانیت کو اپنے حقیقی خالق تک پہنچانا ، اس کی خوشنودی اور قربت حاصل کروانا ہے۔ متعدد آیات مبارکہ میں قرآن کریم کو جو شفاء کہا گیا ہے ، اس کا اصل اور بنیادی مقصود بھی یہی ہے کہ اعتقادی گمراہیوں اور قلبی واخلاقی کمزوریوں سے اس میں سرمایہ صحت اور شفاء موجود ہے، لہذا کوئی شخص اعتقادی اور قلبی بیماریوں سے محفوظ رہنا چاہے تو قرآن کریم اس کا نسخہ اکسیر ہے جس کو اگر مضبوطی سے تھاما جائے تو ایسی ہر بیماری سے انسان محفوظ رہ سکتا ہے۔ رہاں یہ سوال کہ آیا قرآن کریم صرف انہی جیسی بیماریوں سے شفاء و صحت کا باعث ہے یا دیگر ظاہری و جسمانی امراض و تکالیف سے راحت کا سامان بھی اس میں موجود ہے ؟ تو اس کے متعلق محقق اہل علم کا جواب اگر چہ اثبات میں ہے اور ان کے نزدیک بہت سے جسمانی امراض و تکالیف کا بھی قرآن کریم سے علاج ہو سکتا ہے ( اور دلائل سے یہی موقف درست بھی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اسی کتاب میں ذکر کیا جائے گا، ان شاء اللہ ) لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ :

الف: یہ نزول وحی کے بنیادی مقاصد میں سے نہیں ہے۔ ب: ہر شخص اس کا اہل و قابل بھی نہیں ہے۔ لہذا کوئی شخص سورت فاتحہ وغیرہ کے ذریعہ کسی بدنی مرض کا علاج کرنا چاہے اور اس کو دم یا تعویذ کے طور پر استعمال کرے لیکن اس کے باوجود اس کا کام نہ بنے تو اس سے قرآن کریم کی اہمیت و صداقت یا اس کی رفعت و احترام پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ اس میں عام طور پر اس طرح کرنے والے کی کمزوری و نا اہلیت کا بھی دخل ہوتا ہے یا جس پر دم کیا جاتا ہو اس کے کسی سقم کا کردار ہوتا ہے جس کی وجہ سے دم کا ظاہر اثر نظر نہیں آتا۔

پانچواں ضابطہ عملیات کی عصری صورتیں

مروج عملیات کی حیثیت ایک علاج کی ہے ، یہ اس معنی میں دین نہیں ہے جس کو چھوڑنا یا اس سے نا واقف رہنا موجب گناہ یا اللہ تعالی کے یہاں باعث حرمان ہو۔ دینداری اور بزرگی کا تعلق ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ہے جس کی جامع و سہل تعبیر اتباع شریعت و سنت ہے۔ اگر اس کو خواہ مخواہ درج بالا معلمی میں دین کا حصہ

فصل دوم: عملیات کی عصری صورتیں

عملیات ایک تعارف

” عملیات “عمل کی جمع ہے اور اس میں یاء نسبت کے لئے ہے ، اصل لفظ عمل ہے ، عمل کا لفظ یوں تو ہر کام کاج پر بولا جاتا ہے لیکن یہاں اس سے خاص قسم کے اعمال مراد ہوتے ہیں چنانچہ ” فیروز اللغات ” میں ہے:

” عملیات: عمل کی جمع۔ افسوں۔ منتر ۔ رسومات۔ “

لیکن رفتہ رفتہ اس لفظ کے مفہوم میں عموم ہونے لگا اور امراض و طرق علاج کی نت نئی شکلیں اس کے اندر داخل ہوتی رہیں۔ اب عام طور پر عملیات غیر طبی و طبیعی طریقہ علاج کو کہا جاتا ہے جس میں نظر بد اور سحر جیسے غیر ظاہری امراض کا علاج تو کیا ہی جاتا ہے ، ساتھ کچھ جسمانی امراض کا علاج بھی کیا جانے لگا ہے۔ دم ، تعویذ، جھاڑ پھونک، نیک فالی اور بد فالی، رمل و جفر وغیرہ حسابی طریقہ کار اور جنات وغیرہ کے تعاون سے مختلف امراض و مسائل حل کرنے کو عملیات کہا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو عامل قرار دیا جاتا ہے۔

فیروز اللغات، ص ۹۵۸

Amliyaat ki Asri Suratein Shari Tanazur mein

By Mufti Ubaid ur Rahman

Read Online

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں
عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں

Download (1MB)

Link 1       Link 2

عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.