احتساب زندگی
عرض ناشر
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ وہ رمضان المبارک میں اپنے وطن دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں میں قیام فرما ہوتے تھے، اہل تعلق کی خاصی تعداد حضرت کے ساتھ رمضان گزارنے کے لیے جمع ہو جاتی تھی، اس میں درس قرآن، درس حدیث اور متعدد کتابوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تھا، اخیر سالوں میں اہل محبت کے اصرار پر حضرت نے خود درس قرآن کا سلسلہ شروع فرمایا جو تقریباً دس سال حضرت کی وفات تک جاری رہا، اس درس میں زیادہ تر حضرت کے خواطر وانطباعات ہوتے تھے اور بعض ایسی نکتے کی باتیں سامنے آتی تھیں جو عام طور پر کتابوں میں بھی نہیں ملتیں ، اس میں حضرت کے قرآنی ذوق کا بڑا حصہ تھا، اور عربی زبان وادب کا بھی اس میں دخل تھا، جس کا حضرت کو ذوق ہی نہیں بلکہ ذائقہ تھا، اور یہ ان کو اپنے محبوب استاد شیخ خلیل عرب بہانی سے ورثہ میں ملا تھا۔ حضرت کی وفات کے بعد اہل تعلق کے اصرار پر ان کے جانشین عم مخدوم ومعظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے یہ سلسلہ شروع کیا، اور الحمد للہ سورۂ فرقان” تک کا درس مکمل ہو چکا ہے، اللہ تعالٰی حضرت کی عمر صحت میں برکت عطا فرمائے ، اور یہ سلسلہ مکمل فرمائے، الحمد للہ ادھر کئی سالوں سے یہ دروس ریکارڈ ہوتے رہے اور ویب سائٹ پر ڈالے جاتے رہے، دنیا کے مختلف حصوں میں ان سے استفادہ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
حضرت مدظلہ کے ان دروس کی بڑی خصوصیت ان کا آسان اسلوب اور بلیغ انداز بیان ہے، جن میں اہم علمی نکتوں کے ساتھ عوام وخواص کی ذہن سازی اور پیغام قرآن سے ان کو مانوس و متعارف کرانے کے ساتھ قلب و نظر میں اس کو اتار لینے کی دعوت ہے، جس کو شریک ہونے والا محسوس کرتا ہے، اس کے علاوہ جغرافیہ و تاریخ سے مولانا کا خاص شغف فہم قرآن کے دروازے کھولتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں موضوعات فہم قرآن کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ دروس بڑی اہمیت کے حامل ہیں، عرصہ سے تقاضا تھا کہ ان کو قلم بند کیا جائے، بڑی مسرت کی بات ہے کہ عزیز القدر مولوی محمد ارمغان ندوی سلمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی، انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا، سر دست ایک ایک سورہ کا درس مرتب کر کے پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس سے پہلے سورہ حجرات کا درس ”اسلامی معاشرہ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوا، سورہ یوسف کا درس خود حضرت ملاحظہ فرمارہے ہیں، یہ سورۃ انبیاء کا درس ہے، جس کو پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے، مضمون کی مناسبت سے احتساب زندگی کے نام سے یہ ناظرین کے سامنے ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عزیزی ارمغان سلمہ کے ضبط تحریر میں لانے اور ترتیب کے بعد اس گنہگار نے اس پر ایک نظر ڈالی، حضرت کی مشغولیت کی بنا پر وہ ان کے حوالہ نہیں کیا جاسکا، اس لیے اگر ترتیب میں کوئی سقم نظر آئے تو وہ اس راقم آغم
کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور حضرت مولانا کے لیے، مرتب کے لیے اور تمام
شریک ہونے والوں کے لیے صدقہ جاریہ فرمائے ۔ آمین.
بلال عبد الحی حسنی ندوی
Ihtisab e Zindagi
By Maulana Syed Rabey Hasani Nadvi