اساتذہ کا کردار
اساتذہ کا کردار اور چند عملی نمونے
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اعتراف نعمت اور احساسات مؤلف
احقر ایک دیہاتی طالب علم ہے ، دیہات میں پیدائش ہوئی ،سرکاری اسکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا کہ والدہ محترمہ کی وفات ہوگئی ، والد صاحب نے نکاح ثانی فرمایا ، بڑے بھائی ڈرائیونگ سیکھنے کی غرض سے بنگلور آ چکے تھے، جامع مسجد بنگلور کے قرب و جوار میں ان کا کام، طعام اور قیام تھا، اس عرصے میں ۔ اللہ جانے۔ ان کے دل میں کیسے خیال آیا کہ مجھے دینی مدرسے میں داخل کرانا چاہئے ، اس لیے انہوں نے تین جوڑے کپڑے وطن روانہ کیے اور رمضان کے بعد دادا جان مرحوم کے توسط سے ایک چھوٹے سے قریبی دینی مدرسہ ضیاء العلوم رومپی چرلہ میں جہاں صرف چار طالب علم تھے داخلہ کروادیا، ایک سال کی مدت میں قاعدہ بغدادی اور تقریباً دس بارہ پارے ناظرہ قرآن مجید پڑھا، دوسرے سال مدرسہ چلا گیا عید الاضحی تک کوئی طالب علم ، یا استاذ مدرسہ نہیں آئے ، مؤذن صاحب گھر میں کھلاتے پلاتے تھے.
۱۳۱۲ھ مطابق ۱۹۹۱ ء میں بقرہ عید کے بعد دادا جان مرحوم کے توسط سے دار العلوم سبل السلام پنگھور میں درجہ حفظ میں داخل کیا گیا، حضرت مولانامحمد حیات صاحب معدنی دامت برکا تہم احقر پر بہت مہربان و شفیق تھے، آپ کی کرم فرمائی ، شفقت ، وقتاً فوقتاً مطعومات و ماکولات کی نوازش اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے طبیعت میں حفظ قرآن مجید کا شوق سبق اور آموختہ وغیرہ سنانے میں تنافس کا مزاج پیدا ہوا، جس کی وجہ سے تعلیمی سفر کبھی جبری نہیں رہا ؛ بلکہ ذوق و شوق ہی سے تعلیمی زندگی کے مراحل پورے ہوئے، بہر حال تین سال کی مدت میں تیس پارے حفظ کئے ، چوتھے سال اپنے استاذ محترم مولانا محمد حیات صاحب سے عربی درجات کی کتب متعلق کر دی گئیں ، جس کی وجہ سے اس مدرسے سے نکل کر ۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۳ ء میں جامعہ محمودیہ رائے چوٹی میں داخل ہوا اور حضرت مولانا شفیع الرحمن صاحب قاسمی کے پاس آخری سات پاروں کا حفظ مکمل کیا۔ ۱۶ ھ مطابق ۱۹۹۵ ء تل۱۸ ۲ هم ۱۹۹۸ ء جماعت فارسی ، عربی اول اور عربی دوم تین سال دار العلوم شاہ ولی اللہ بنگلور میں زیر تعلیم رہا، اس عرصے میں مختلف اکابر اساتذہ کرام سے استفادے کا موقع ملا، بطور خاص استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد اسلم صاحب رشادی مدظلہ کی خصوصی عنایات و تو جہات حاصل رہیں، درسی کتب لکھنے، پڑھنے اور یاد کرنے میں کبھی کسی استاذ کے لیے الحمد اللہ شکایت کا موقع نہیں ملا.
اساتذہ کا کردار
عموماً بعد نما ز عصر حضرت کی خدمت میں حاضری ہوتی حضرت والا کے لیے چائے ،کافی پسکیٹ وغیر مطبخ ، یا دکان سے احقر یا مولا نامحسن شاہی صاحب مدرس دار العلوم شاہ ولی اللہ لے آتے ، حضرت الاستاذ نوش فرماتے اور بندے کو بھی ضرور عنایت فرماتے ، اس موقع پر مختلف جہات سے احقر کی تربیت فرماتے ، پہلے سال صرف خدمت میں حاضری اور مناسبت رہی ، دوسرے سال آپ نے نماز فجر تا رات سونے تک کا نظام الاوقات کا نقشہ تیار کرنے کا حکم فرمایا، اپنے اعتبار سے تیار کر کے لے آیا، حضرت نے اس کے نوک و پلک کو درست فرمایا اور اس کی پابندی کا حکم دیا، اس نقشے میں مختلف معمولات کے ساتھ اسباق یاد کرنے اور لکھنے کے لیے بھی وقت کی تحدید و تخصیص ، اگلے اسباق کی تیاری ، غیر درسی کتب کا مطالعہ اور ان کا وقت درج تھا ، روزانہ بعد نماز عصر نظام الاوقات سے متعلق کارگذاری اور مصباح اللغات سے براہ راست تین لغات یاد کر کے سنانا ضروری تھا۔ عربی اول کے سال مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”نبی رحمت کا مطالعہ کرنے کا حکم فرمایا ،روزانہ بعد نماز عشاء درسی امور کی تکمیل کے بعد بلا ناغہ نبی رحمت کا مطالعہ کرتا تھا، احمد اللہ چند دن میں کتاب مکمل کر لی ، پھر آپ نے مولانا حسین احمد مدنی مصنفہ وحید الفریدی مطالعہ کے لیے عنایت فرمائی ، مذکورہ ترتیب کے موافق اس کتاب کا بھی مطالعہ کیا ، اس طرح اگلے سبق کی تیاری کا اہتمام اور غیر درسی کتب کے مطالعہ کا شوق اور عادت بن گئی ۔
اساتذہ کا کردار
نیز مصباح اللغات سے براور است تین لغات روزانہ بعد نماز عصر یاد کر کے حضرت الاستاذ کو سنانے کی وجہ سے لغات کی ورق گرادنی کا طریقہ وسلیقہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے عربی ادب کی کتابیں جو داخل درس ہوتیں ، سبق میں شرکت سے پہلے ہی ان کی عبارت، ترجمہ اور ترکیبیں حل ہو جاتی تھیں، نیز ان لغات کے یاد کر لینے سے اگلے تعلیمی سالوں میں درسی کتب کے حل کے لیے کتب لغت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ عربی دوم کے سال آپ سے ہدایت النحو اور تیسیر المنطق، پڑھی ، ہدایت النحو کا سبق فرڈ افراد سنانا ہر طالب علم کے لیے لازم تھا ، آپ ذہین طلبہ کو عربی عبارت کے ساتھ سبق سنانے کی ترغیب دیتے تھے، الحمد اللہ بندہ بھی عربی عبارت کے ساتھ سبق سنا نے والوں میں شامل تھا، نیز تین مجلسوں میں پوری کتاب عربی عبارت کے ساتھ سنائی تھی، اس کے علاوہ حضرت الاستاذ نے عربی زبان ہی میں منطق کی اصطلاحات بھی یاد کرا دی تھیں ۔ اس شفقت تربیت اور محنت کا فائدہ یہ ہوا کہ مزاج میں حصول علم کا شوق و شغف درسی کتب میں محنت کا جذ بہ مطالعہ کی عادت اور عربی زبان سے مناسبت پیدا ہوئی جو دارالعلوم دیوبند کے چھ سالہ تعلیمی عرصے میں نہایت مفید ثابت ہوئی ، طبیعت میں آزادی ، تن پروری ، سستی کاہلی اور غلط صحبتوں سے حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوئی ، یہ تعلیمی سفر کی خشت اول تھی جو پورے خلوص و بے غرضی سے رکھی گئی تھی ، جو ایک ناکارہ و پس ماندہ طالب علم کے لیے قدرتی طور پر زندگی کی صحیح سمت کی تعیین کے لیے ظاہری اسباب کے طور پر وجود میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: ان پیج 2121 میں مفت ڈاون لوڈ کریں
اساتذہ کا کردار
۱۴۱۹ھ مطابق ۱۹۹۸ ء میں احقر دار العلوم دیو بند گیا، اپنے پھوپی زاد بھائی کے کمرے میں قیام کیا ، تقریری و تحریری امتحان میں کامیابی ملی اور امدادی داخلہ ہو گیا۔ حضرت مولا نا خضر محمد صاحب کشمیری دامت بر کاتہم سے نفعیہ العرب، متعلق تھی، نفیۃ العرب“ کا مقدمہ ختم ہوا، استاذ محترم نے درس گاہ میں اعلان فرمایا کہ جو طالب علم تھوڑی دیر میں مقدمہ سنائے گا، اس کو جلیبی کھلاؤں گا، ایک قدیم طالب علم محمد صہیب نے سنانا شروع کیا ، پھر دوسرے طالب علم نے سنایا ، پھر بندے نے بھی قدیم طلبہ کی اکثریت کے ماحول میں مختصر حمد و ثنا اور الفاظ خطاب کے ساتھ نفحۃ العرب کا مقدمہ سنا دیا ، استاذ محترم بنظر تعجب دیکھتے رہے اور آخر میں حوصلہ افزا کلمات ارشاد فرمائے ، اپنے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا ہوا، اس کے بعد اسباق میں بلاتر دو سبق سنانے اور عبارت پڑھنے میں حصہ لینے لگا۔ حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری مدظلہ اس وقت بھی با جمال ، ذی وقار اور ذی ہیبت و وجاہت استاذ تھے ، ” شرح شذور الذهب القراءۃ الواضحہ“ تیسرا حصہ پڑھاتے تھے ، آپ کے اسباق میں بھی عبارت خوانی میں حصہ لینے لگا ، استاذ محترم بھی شفقت فرماتے ، استاذ کے قریب بائیں جانب میری نشست تھی ، حضرت الاستاذ اپنی نشست گاہ پر بیٹھتے اور کھڑے ہوتے ہوئے وقاً فوقتاً لطیف مسکراہٹ کے ساتھ میری پشت کا سہارا لیتے ، آپ کے رعب و جلال سے پانی پانی ہو جا تا تھا۔
ماہانہ امتحان کا موقع آیا ، امتحان سے ایک دن پہلے آپ نے سبق نہیں پڑھا اور فرمایا کہ حلقے بنا کر امتحان کی تیاری کرو ، قدیم طلبہ اپنے حلقے بنائے اور جدید طلبہ بھی ان میں شامل ہو گئے ، احقر حضرت کے قریب تپائی پر تنہا بیٹھا رہا، استاذ محترم نے چند طلبہ سے کہا کہ تم ان کے ساتھ مذاکرے اور تکرار میں شامل ہو جاؤ، چنانچہ حضرت الاستاذ کے حکم سے چند طلبہ سے اپنے حلقے کا آغاز ہوا، درسی ساتھیوں میں ایک پہچان ہوئی اور احقر کا حوصلہ بلند ہوا ، بشمول دورہ حدیث ہر درجے میں عبارت خوانی اور درسی امور میں پیش پیش رہنے کا حوصلہ و موقع ملتا رہا۔ حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم اردو اور وعربی کے بہترین ادیب ہیں ، عربی لہجہ میں عبارت پڑھتے ہیں اور شستہ وعمدہ ترجمہ فرماتے ہیں، کبھی کبھی روایتی ترجمه نقل فرما کر ہنسی مذاق بھی فرماتے تھے۔
حضرت مولانا اکبر شریف صاحب مدظلہ موجودہ شیخ الحدیث دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور سے قصص النبیین پڑھی تھی اور شستہ و عمدہ ترجمہ سے مناسبت تھی ” شرح شذور الذہب کے سنے کا اہتمام اور ” القراءۃ الواضحہ“ کی تمرینات سے ترجمہ کرنے کا سلیقہ پیدا ہوا، یہ آپ ہی کا خصوصی فیض ہے جو آپ کی شفقتوں اور تو جہات سے بندے کو حاصل ہوا۔
۱۴۲۴ھ مطابق ۲۰۰۴ ء میں دار العلوم حیدر آباد میں شعبہ افتاء میں داخل ہوا، شعبہ کے صدر مردم ساز شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی صدر المدرسین وصدر مفتی دارالعلوم حیدر آباد تھے ، حضرت والا نے بندے کے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ فرمایا ، خاص توجہ فرمائی، ایک دو ہفتہ عام تمرینات دیں، اس کے بعد دار الافتاء موصول ہونے والے استفتاء بندے کے سپر دفرمادیتے تھے ، اپنی کاپی میں کئی حوالوں سے جواب لکھنا پڑتا ، پھر جن اقتباسات کی نشان دہی فرماتے ، ان کو اصل استفتاء والی کاپی میں لکھنے کا حکم ہوتا ، سال بھر تقریبا دو سو دس تمرینات ہوئیں جو دو ہزار کے برابر ہیں ، ان سوالات کے حل کرنے میں خوب محنت اور خوب مشق ہوئی ، فتوی نویسی کی نزاکتوں اور باریکیوں سے واقفیت ہوئی۔
شروع سال ہی میں امریکہ سے مفتی نوال الرحمن صاحب مدظلہ نے ایک استفتاء دار العلوم حیدر آباؤ ارسال فرمایا، جس میں مشینی ذبح سے متعلق استفتار کیا گیا تھا، حضرت والا نے ایسے اہم استفتاء کو بندے کے سپر د فر ما دیا، اپنی بساط ، تلاش اور جستجو کے موافق دار الافتاء کی تمام متعلقہ کتب دیکھیں، جواب کی ایک سطر بھی تیار نہیں کر سکا، بعد نماز ظہر تمرین کی گھنٹی شروع ہوتی تو مجھے پر ڈر اور خوف سوار ہو جاتا کہ آج کی تمرین نہیں ہوئی ، استاذ محترم کو کیا جواب دوں گا؟ مرعوب، خوف زدہ اور پریشانی کے عالم میں کتابوں میں متعلقہ مواد تلاش کرنے میں لگا رہتا، وقت پورا ہوتا ، خوف و پریشانی دور ہوتی ، تقریباً دو تین دن اسی حالت میں گذرے، تیسرے یا چوتھے دن تمرین کی گھنٹی میں تمام ساتھی اپنی تمرینات دکھا کر فارغ ہو گئے ، میں ڈرتے ڈرتے مرعوب و مایوس چہرے کے ساتھ استفتاء کی نقل لے کر حاضر خدمت ہوا اور دبی آواز میں عرض کیا ، حضرت جواب مجھے نہیں مل رہا ہے، حضرت والا نے بظاہر استغناء کے ساتھ فرمایا : جائیے بزرگ تلاش کیجئے۔ احقر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، مزید مایوسی کے ساتھ کتابوں کی الماری کی طرف متوجہ ہوا، آنکھوں سے آنسوں بے تحاشہ جاری ہو گئے ، ذہن عاجز و بے بس تھا، کچھ سمجھے میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ، اللہ جانے استاذ نے کیا نظر ڈالی ، کیا توجہ فرمائی اور کیا دعائیں دیں، اسی دن ” منتخب نظام الفتاوی میں مجھے اپنا مطلوبہ موادل گیا، پھر دیگر کتابوں میں بھی وہ مضمون ملا، تین چار صفحات کا مقالہ تیار ہو گیا ، پھر حضرت کی خدمت میں کاپی لے کر حاضر ہوا، آپ نے مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب نظر اٹھائی اور کاپی کی جانچ فرمائی، پھر جواب کے لیے تمرین کی کاپی کے چند اقتباسات اور چند دلائل لکھنے کا حکم فرمایا.
اس موقع پر بے انتہاء خوشی و مسرت ہوئی ، اس دن کے بعد سے الحمد اللہ آج تک مسائل کی تلاش اور تخریج میں بہت آسانی ہوتی ہے، ہمت پست نہیں ہوتی ، کوشش و تلاش سے مسئلے کا حل نکل جاتا ہے، یہ استاذ کی کرامت تھی ، یا خصوصی نظر ودعا ئیں تھیں، مجھے امتحان و آزمائش میں کیوں مبتلا کیا گیا ؟ ۔ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن اللہ نے میرے لیے آسانیوں کا دروازہ کھول دیا۔ ایک مرتبہ ناخن تراشنے کا طریقہ کے عنوان پر تمرین دی، احقر نے کتب حدیث اور شروح حدیث کی طرف مراجعت کی اور بعض علماء کرام کی رائے کے موافق بہت فخریہ انداز میں تمرین میں لکھا کہ ناخن تراشنے کا کوئی مخصوص طریقہ قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے، حضرت والا نے جوابی کاپی پر ایک نوٹ لکھا: کیا مزاج شریعت و مذاق شریعت سے واقف علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے؟ بندہ پانی پانی ہو گیا، پیروں تلے زمین کھسک گئی ، اس لیے کہ جواب کی تیاری کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس میں علامہ نووی شارح مسلم کی عبارت دیکھی تھی که ناخن تراشنے کا مستحب طریقہ یہ ہے، اگر چہ احادیث صحیحہ میں اس کی مخصوص کیفیت وارد نہیں ہوئی ہے۔
احقر نے اسی کو نظر انداز کیا تھا ، اس کے بعد سے آج تک نصوص کی تشریح، آیات کی تفسیر اور مسائل میں اکابر کی آراء و دلائل کو نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ؛ بلکہ عبارات اکابر کی تائید کے بغیر ذہن مطمئن ہی نہیں ہوتا ، یہ وہ نکتہ اور تربیت ہے جو انسان کو ذہنی آزادی، یا اظہار خیال کی آزادی کے پر فریب و مہلک مرض سے محفوظ رکھتا ہے، احقر کی رائے میں یہ بھی استاذ کی کرامت اور توجہات کی برکت ہے۔ استاذ محترم تمرینات میں خوب تحقیق کے ساتھ جوابات تحریر کرنے کی ترغیب دیتے ، بعض مرتبہ جوابات کو ناقص بتا کر مزید کتابوں کی طرف مراجعت کا حکم فرماتے ، جوابی تحریر میں تعبیرات کو درست فرماتے ، جس کی وجہ سے تحقیق کا شوق پیدا ہوا اور تحریر و مضامین کی مشق بھی خوب ہوئی۔ آخر میں ایک مختصر بات پیش کروں، سالانہ امتحان سے فراغت ہوئی ، ہم چند طلبہ سواری کے انتظار میں صحن دار العلوم میں موجود تھے، بعد نماز عشا اتفاقاً حضرت الاستاذ تشریف لے آئے اور محسن دار العلوم میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے ، ہم دو تین طلبہ نے عرض کیا : حضرت کوئی نصیحت فرمادیجئے ، حضرت الاستاذ نے فرمایا : بزرگ! واجبات پورے کرو، خواہ وہ واجبات من جانب اللہ ہوں، یا من جانب العباد، آخرت کی گرفت اور دنیا کی ذلت ورسوائی سے محفوظ رہو گے۔
اساتذہ کا کردار
اللہ بہتر جانتے ہیں کہ ان مختصر جملوں نے مجھے کس قدر فائدہ پہنچایا ، ہر موقع پر استاذ کی سنہری نصیحت یاد آتی ہے اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں سنگ میل ثابت ہوتی ہے، بہر حال حضرت اقدس مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی ایک بے مثال استاذ اور مردم ساز مربی ہیں، بندے پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۰۰۵ء میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد اسلم صاحب رشادی مدظلہ نے جامعہ غیث الہدی بنگلور میں تدریسی خدمت پر مامور فرمایا، “جامعه حاضری کے بعد استاذ محترم نے خوب شفقت فرمائی ، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی رہنمائی ، رہبری ، عنایتیں اور شفقتیں حاصل رہیں ، بلا مطالبہ ہی اہم کتا ہیں متعلق فرماتے رہے ، آپ کی توجہات کی برکت سے الحمد اللہ پڑھنے پڑھانے میں سہولت ، آسانی اور ترقی نصیب ہوئی۔ ابتداءا چند اصلاحی مضامین کو صحیح ونظر ثانی کے بعد شہر بنگلور کے مشہور اخبار روز نامہ سالار میں شائع فرمایا ، بندے میں حوصلہ پیدا ہوا، اذان اور موذنین رسول اللہ نامی کتاب مرتب کی ، ایک ایک مضمون لکھ کر خدمت میں پیش کرتا، اس کی تصحیح اور نظر ثانی فرماتے ، استیسیر فی التصریف“ دراصل آپ ہی کی فکر و کاوش ہے ، بندے نے آپ کے ارشاد کے موافق ترتیب دی ہے، رہنما اصول برائے خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے ابواب وعناوین متعین فرمائے ، بندے نے مواد جمع کیا، تو مضامین پر گہری نگاہ ڈالی تعبیرات کو درست فرمایا اور اس کے نوک و پلک کو سنوارا ، بہر حال تدریسی تصنیفی، دینی اور دنیوی ہر اعتبار سے اصلاح اور تربیت کی فکر فرماتے ہیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر نصیب فرمائے ، صحت، سلامتی اور عافیت نصیب فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے۔ میرے تمام ہی اساتذہ مشفق و مہربان تھے اور ہیں۔
اساتذہ کا کردار
البتہ اصلاحی تعلیمی وتربیتی اعتبار سے بعض اساتذہ کرام کے خصوصی احسانات ہیں، جن کے اثرات اپنی زندگی میں ثبت و نمایاں ہیں ، میں نے بطور خاص ان ہی حضرات کا تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالی مذکورہ تینوں اکابر اساتذہ کو دنیاو آخرت میں بہترین بدلہ نصیب فرمائے ، صحت و سلامتی ، فیوض اور برکات کے ساتھ آپ کی عمروں کو دراز فرمائے ، آپ کے فیوض و برکات کو امت میں تا قیام قیامت جاری فرما کر انہیں صدقہ جاری بنائے ، الحمد اللہ اس عاجز بندہ کی گزارش پر کتاب کے موضوع سے متعلق عمدہ مضامین تحریر فرمائے ہیں اور بندہ کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے دعاؤوں سے نوازا ہے۔ احقر جو کچھ اور جس درجے کا بھی انسان بنا ہے، وہ ان ہی اساتذہ کی شفقت ، تربیت اور تو جہات سے بنا ہے، بندے کو ان امور کا بہت شدید احساس اور اعتراف ہے، بندہ ان ساتذہ کرام کا نہایت ممنون اور مشکور ہے، اللہ تعالی سب کی دنیا و آخرت کو بہتر بنائے ، یہی احساسات و تاثرات ہیں جو اس کتاب کی ترتیب کے ظاہری اسباب بنے۔
ان ربي لطيف لما يشاء انه هو العليم الحكيم.
انسانی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو بھی بڑے بنے ، بلندیوں پر پہنچے اور کامیابیاں حاصل کیں، ان کی شخصیت سازی میں ان کے اساتذہ کی محنت ، کاوش اور تو جہات کو بہت بڑا دخل رہا ہے۔ چند سال قبل جامعہ غیث الہدی بنگلور میں تدریب امعلمین کا اجلاس منعقد ہوا، بندے نے طلبہ کی ترقی میں اساتذہ کا کردار اور ان کی خدمات میں اساتذہ کے علوم و فیوض کا اظہار کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا ، جس میں بطور نمونہ حضرت قاسم بن محمد اور حضرت عروہ بن زبیر کی شخصیت سازی میں حضرت عائشہ کا کردار، امام ابو یوسف کی شخصیت سازی میں امام ابو حنیفہ کے کردار کا تذکرہ کیا گیا ، اسی وقت خیال ہوا کہ اس مقالے میں اپنے اکابر ”دارالعلوم دیوبند کا بھی بالترتیب تذکرہ ہونا چاہئے ،اسی ارادے کی تکمیل اس کتاب میں کی گئی ہے۔ اس مختصر کتاب میں ان ہی مخلص ، بے لوث اور فن رجال سازی کے ماہر اساتذہ کرام کے مختصر و چنندہ احوال اور طلبہ پر عنایتوں کے واقعات کو بطور نمونہ ذکر کیا گیا ہے، جنھوں نے ذی استعداد شاگروں کی کھیپ تیار کی ، جو اپنے لائق شاگروں کے لیے دل سوزی و هم در دی ، ان کی تربیت و استعداد سازی کے لیے غیر معمولی فکرمندی، اولاد کی طرح ان کی مادی و معنوی پرورش کے لیے مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ نیز اس مضمون سے متعلق قاری امیر حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی سلیم اللہ خاں رحمتہ اللہ علیہ، مولانا مفتی رفیع عثمانی اور مولانا مفتی تقی عثمانی مدظلہما کی قیمتی تقایر دستیاب ہوئیں، ان تقاریر کوتحریری شکل میں مرتب کرنے کے بعد اس کتاب کا جزء بنایا گیا ہے۔ یہ واقعات و حالات ۔ ان شاء اللہ ۔ قاری کے لیے سبق آموز بھی ہوں گے اور باعث عبرت و نصیحت بھی ، اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف طلبہ ؛ بلکہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہوگا کہ دونوں کو اس سے یہ سبق ملے گا کہ طلبہ کو اطاعت وسعادت کا نمونہ ہونا چاہئے اور اساتذہ کو شفقت پدری و اخلاص بزرگانہ کی مثال رہنا چاہئے۔
اساتذہ کا کردار
دونوں فریق میں جس درجہ مذکورہ صفات کی فراوانی ہوگی ، اسی درجے تعلیم و تعلم کی عمل بار آور ہو گا اور جس درجے ان کی کمی ہوگی ، اسی درجہ یہ عمل غیر مفید اور بے فیض ہوگا، نیز طلبہ کو اپنے اساتذہ سے جس درجے کا تعلق ہوتا ہے، اسی درجہ طلبہ اساتذہ کی شفقتوں سے بہرہ یاب ہوتے ہیں ؛ بلکہ انھیں اپنی استعدادسازی، اپنے آپ کو میدان عمل میں کارآمد اور ہنر مند بنانے کا سنہرا موقع بھی ملتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ میرے تمام اساتذہ کرام کی مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ، جو باحیات ہیں، ان کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کے سایے کو تادیر بصحت و عافیت قائم رکھے ، اس کوشش کو قبول اور ذخیرہ آخرت فرمائے معلمین و مدرسین کو طلبہ کی قدر کرتے ہوئے ان پر محنت کی توفیق طلبہ عزیز کو اپنے اساتذہ کی قدر اور احسان شناسی کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔
محتاج دعا: عبداللطیف قاسمی
جامعہ غیث الہدی بنگلور
۲۸ رذی الحجہ ۱۴۳۱ ھ مطابق ۱۹ اگست ۲۰۲۰ء
Asatiza ka Kirdar By Mufti Abdul Latif Qasmi
اساتذہ کا کردار
Download (3MB)