اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقدیم
حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ، دار العلوم وقف دیوبند اسمائے حسنیٰ
ایک تحقیقی جائزہ
اسمائے حسنیٰ کی عظمت و اہمیت مسلم معاشرے میں ایک حد تک معروف ہے ، اسی کے تحت ابتدائی مکاتب میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ اسمائے حسنیٰ یاد کرانے اور روزانہ ان کو پڑھوانے کا مفید و کارآمد معمول بھی ہے ، ایسے ہی اوراد و وظائف سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بھی اسمائے حسنیٰ سے استفادہ کرتے ہیں ، اسی طرح علماء کرام بھی اپنے مواعظ میں اسمائے حسنیٰ کے فضائل بیان کر دیتے ہیں، ان تمام معمولات کے باوجود عمومی طور پر عوام کا تو کیا علما کا ذہن بھی اس طرف ملتفت نہیں ہوتا کہ اسمائے حسنیٰ کے بارے میں کچھ علمی وحل طلب مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔
چنانچہ پہلا سوال تو یہی قائم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ ۹۹ ہی ہیں یا کم وبیش کا بھی احتمال ہے؟ دوسرے یہ کہ یہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ قرآن کریم بھی موجود ہیں یا نہیں؟ نیز یہ کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے یا زائد ہے؟
اگر یہ شامل ہو تو اسمائے حسنیٰ کی تعداد 99 کے بجائے ۱۰۰ ہو جاتی ہے جبکہ ابو ہریرہ کی روایت بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ۹۹ نام ہیں یعنی ایک کم سو، اس سے معلوم ہوتا ہے اسم اللہ ان ۹۹ میں شامل نہیں ہے ، اور حدیث مبارک: إِنَّ الله وِثر يُحِبُّ الْوِثر کے تحت بھی ۹۹ ہی وتر ہے ، ۱۰۰ وتر نہیں ہے ، دوسرے نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو اسم اللہ وتر ہے، اور ۹۹ کا عدد الگ ایک وتر ہے تو اس سے مفہوم یہ ہی نکلتا ہے کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ سے الگ ہے، اس علیحدگی سے دونوں کی و تربیت بھی قائم رہتی ہے اور عدد 99 بھی۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ میں رحمن کو ذکر ا الله کے مساوی قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں ذاتی اور صفاتی کی تقسیم نہیں ہے، جبکہ اہل علم ذاتی اور صفاتی کی تقسیم مانتے بھی ہیں اور بتلاتے بھی ہیں۔ نیز یہ بھی ایک سوال کی صورت اختیار کرتا ہے کہ اسمائے الہی کا 99 میں حصر نہیں ہے، بلکہ ارشاد نبوی کا مقصد یہ ہے کہ ان ۹۹ کا پڑھنا جنت میں داخلے کا اہم وسیلہ ہے، جبکہ بعض ارباب علم کے اقوال یہ بھی ہیں اسمائے الہی کا حصر ۹۹ ہی ہے اس میں اضافہ ناجائز ہے، جس پر مرآۃ الا واحدۃ کی تصریح واضح دلیل ہے۔
پھر اس کے برخلاف ایسی روایات بھی ہیں کہ جن سے ۹۹ میں اسمائے الہی کا حصر
مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ۹۹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر قرآن کریم میں مذکور افعال الہی سے اسماء کا اشتقاق بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ بعض افعال ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن سے مشتق اسم اللہ رب العزۃ کی عظمت و جلال
کے خلاف ہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی وہی صحیح ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے
اپنے نام سے موسوم فرمایا ہے۔
پھر بات یہیں آ کر ٹھہرتی ہے کہ ان اسمائے حسنیٰ کی تعداد ۹۹ ہی ہے جن کو یاد کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، جس کی تاکید نبی کریم صلی یا یہ ہم نے یہ کہ کرفرمائی ہے کہ اللہ کے نام ایک کم سو ہیں، اس سے ۹۹ کی تاکید مزید ہو جاتی ہے۔
اور عبدالرزاق الرضوانی کا یہ قول کہ اللہ کے بہت سے ایسے نام لوگوں کی زبان زد ہیں جو حقیقہ اللہ کی صفات یا افعال ہیں ، اسماء نہیں ہیں ، اور اسلاف صالحین کی روش سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی توقیفیہ ہیں جس میں عقلی اجتہاد کے ذریعہ اسکے اوصاف یا افعال سے اسماء مستنبط کرنا صحیح نہ ہوگا، لہذا اسمائے الہی کی توقیفیت اس امر کی
متقاضی ہے کہ ان ۹۹ اسمائے الہیہ پر دلائل قرآنیہ موجود ہوں۔
اللہ رب العزة کی صفات و افعال بے شمار قرآن کریم میں مذکور ہیں ، ان سے اشتقاق کرنے سے اسمائے الہی بے شمار ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ اس قسم کے اسماء بعض کتب حدیث میں لکھے ہوئے بھی ہیں لیکن علمائے حدیث نے جس روایت کی بنا پر پر یہ اسماء مشتق کئے گئے ہیں اس کو غیر ثابت اور ضعیف تسلیم کیا ہے، لہذا اس سے بھی صفات
یا افعال سے اسماء کا اشتقاق صحت کو نہیں پہنچتا۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی لائق ذکر ہے کہ ۹۹ اسماء الہیہ ( بالاستیعاب) نه قرآن کریم میں وارد ہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں موجود ہیں۔
کتاب ہذا میں ان تمام سوالات پر انتہائی شافی و کافی مکمل و مدلل جوابات جمع فرمائے گئے ہیں، اور ساتھ ہی مؤلف محترم مولانا محمد عمران صاحب مظاہری نے قرآن و حدیث سے ماخوذ ۹۹ اسمائے الہیہ بھی اس کتاب میں تحریر فرمادے ہیں ، کتاب کی علمیت ، صحت اور پیش آمدہ سوالات کے جوابات کی مدللیت نے اس کتاب کی افادیت کو انتہائی وقیع ، قابل قدر اور لائق شکر بنا دیا ہے، جس کو پڑھ کر اسمائے حسنیٰ کے متعلق نہ صرف مسائل معلومہ کا علم صحیح ہی حاصل ہوتا ہے بلکہ ان کے پر تاثیر فضائل کو پڑھنے کے بعد ان کو پڑھنے کی توفیق بھی ہونے لگتی ہے، حق تعالیٰ مؤلف محترم کے علم میں ، اخلاص
میں ، اعمال میں ، طاعات و عبادات میں بے حساب برکات و مقبولیت ارزانی فرمائے۔ امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہر قاری اسمائے حسنیٰ پڑھنے کے لئے انشاء اللہ موفق بھی ہوگا ، اور سب کی توفیقات کے اجر و ثواب میں انشاء اللہ مؤلف محترم عند اللہ
شریک و سہیم بھی رہیں گے۔
وفقه الله لخدمة الإسلام والمسلمين فى المستقبل أهم و أكثر من ذى
قبل والله الموفق والمعين
( حضرت مولانا ) محمد سالم (صاحب) قاسمی
۲۵ شعبان ۱۴۳۴ھ ۵/ جولائی ۲۰۱۳ ء یوم الجمعه
Asma e Husna Ek Tahqiqi Jaiza
By Maulana Muhammad Imran Mazahiri