باہمی اختلافات، ہماری سوچ اور پیغمبرانہ سوچ میں فرق

اختلاف
Bahmi ikhtilaf aur peghambarana soch باہمی اختلافات ہماری سوچ اور پیغمبرانہ سوچ میں فرق سید عبدالوہاب شیرازی
Bahmi ikhtilaf aur peghambarana soch باہمی اختلافات ہماری سوچ اور پیغمبرانہ سوچ میں فرق سید عبدالوہاب شیرازی

Read Online

Download

باہمی اختلافات ،ہماری سوچ اور پیغمبرانہ سوچ میں فرق

(نکتہ: سیدعبدالوہاب شیرازی)

مولوی انیس احمدؒ ایک گمنان مجاہد ، تحریک ریشمی رومال کے سرگرم کارکن اور اسیرمالٹا تھے۔ 1912ءمیں علیگڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد انگریز کی عطا کردہ”ڈپٹی کلکٹری“ یعنی جج کا عہدہ چھوڑ کر علومِ قرآنی حاصل کرنے کے لئے دہلی پہنچے۔ دہلی میں قائم مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کے ادارے ”ادارہ نظارة المعارف“ میں داخلہ لیا، کافی عرصہ علوم قرآنی کی تحصیل کرتے رہے اور پھر سندِ فراغت لے کردیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں داخل ہوگئے۔دیوبند میں حضرت شیخ الہندؒ سے تبلیغ قرآن اور علوم دین کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ الہندؒ ہی کے زیرِسایہ تحریک ریشمی رومال میں سرگرم ہوگئے،تحریک میں حیدرآباد دکن کے ذمہ دار رہے۔ بعد ازاں بغاوت کے جرم میں انگریز کے ہاتھوں گرفتار ہو کر کالاپانی میں قید رہے اور پھر چندسالوں کے بعد وہاں سے رہائی ہوئی۔ان کی علمی وجاہت کی یہ شان تھی کہ خواجہ حسن نظامی جیسے لوگ ان سے عاجزانہ ملتے تھے، علامہ مشرقی، علامہ اقبال، اکبر الٰہ آبادی، سرعبدالقادر سمیت بڑے بڑے لیڈر ان سے مشورے لیا کرتے اور اس کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔رہائی کے بعد بھی انگریز ان کو بہت تنگ کرتے رہے، ان کے بیٹے شاہداحمد کو مقابلے کے امتحانوں میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا۔

مولوی انیس احمدؒ کا مختصر تعارف کروانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ایک کتاب ”انوارالقرآن “آج کل میرے زیر مطالعہ ہے، میری علماءسے گذارش ہے کہ وہ مولوی انیس احمدؒ کی یہ کتاب اور مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی کتاب ”وحدت امت “کو ضرور مطالعہ کریں۔مولوی انیس احمدؒ ”انورالقرآن“ میں لکھتے ہیں: ایک پیغمبر ”نااتفاقی “کے مقابلہ میں قوم کا عارضی ”گمراہی “میں رہنا پسند کرتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم متفق رہتی ہے اسی وقت تک عمدہ نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ اب ظاہر ہوگیا ہوگا کہ قرآن شریف کا ایک حصہ کا تو مفہوم ہی بدل گیا ، ایک حصہ بھلا دیا گیا اور ایک حصے کی تعلیم کو کہانیوں کا درجہ دیا گیا ہے، اس سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کی جاتی، تو پھر کون سی تعجب کی بات ہے کہ اب قرآن مجید سے وہ نتیجے پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہیے اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں پیدا ہوچکے ہیں۔

مولوی انیس احمدؒ کی یہ بات کہ پیغمبراناسوچ کیسی ہوتی ہے ہمیں بلاشبہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے، ہماری سوچ آج کیسی بن گئی ہے، معمولی اور فروعی اختلافات میں پڑھ کر ہم نے قوم کو کئی حصوں میں تقسیم بھی کیا ہوا ہے اور پھر اس بات کا رونا بھی روتے ہیں کہ اسلام غالب نہیں ہورہا۔ حضرت موسی علیہ السلام جب کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو قوم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی، جب حضرت موسی علیہ السلام واپس تشریف لائے تو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا: اے ہارون جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو گئے تو تم کو کیا وجہ مانع ہوئی کہ تم نے میری ہدایت کی پیروی نہ کی۔ کیا تم نے میری حکم عدولی کی؟(طہ۳۹) یعنی جب وہ گمراہ ہورہے تھے تو تم نے ان کو منع کیوں نہ کیا، توحضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا: اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑو، میں اس بات سے ڈرا کہ تم واپس آکر یہ کہنے لگو کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی(طہ) یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کو جب اپنی اصلاح کی کوششوں میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی قوم کی عارضی گمراہی کو پسند کیا بجائے اس کے کہ آپ اس کو روکنے کے لئے ایسی پرزور کوشش کرتے جس سے قوم کے ٹکڑے ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ حضرت موسی کی قوم کا واقعہ اور شرک میں مبتلا ہونا محض شک والی بات نہیں تھی بلکہ واضح طور پر انہوں نے شرک کیا تھا، اب اگر ہم اپنے اردگرد کو دیکھیں، یا ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ ہم تو محض شک اور گمان کی بنیاد پر بلادلیل کفر وشرک کے فتوے ٹھوک دیتے ہیں، اور کسی کو کافر بنانے یا گمراہ قرار دینے کا معیار ہم نے اپنا مسلک یا اپنا مدرسہ بنا دیا ہے جو ہمارے مسلک میں ہے یا ہمارے مسلک کے مدرسے میں پڑھا ہے اس کے ہدایت یافتہ ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے اورجو ایسا نہیں وہ گمراہ ہے۔

            مفتی مختار الدین شاہ مدظلہ فرماتے ہیں:محض شک اور گمان کی بنیاد پر نہ تو کسی پر الزام لگانا چاہیے اور نہ ہی کفر وشرک کے فتوے،ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ”الزام“ اور ”التزام“ میں فرق ہوتا ہے، فتوی ”لازم “پر نہیں بلکہ ”التزام “پر لگتا ہے۔ بولنے والے یا لکھنے والے کی بات اور تحریر سے جو مفہوم نکلتا ہے اس کو ”لازم“ کہتے ہیں، اور معنی کا اگر صاحب تحریر اقرار اور اعتراف کرے یا اس کے کلام کا مکمل سیاق وسباق کوئی معنی متعین کرتا ہے تو اسے معنی التزامی کہتے ہیں، لہٰذا اگرصاحب تحریر کے معنی لازمی اور معنی التزامی میں فرق ہو تو معنی التزامی پر حکم یا فتویٰ لگایا جائے گا نہ کہ معنی لازمی پر۔چنانچہ صرف مفہومِ لازمی کو دیکھتے ہوئے فتویٰ یا حکم لگایا تو یہ اس شخص پرمحض الزام ،غلط اور شریعت کی حدود سے تجاوز اور ظلم ہوگا۔آج کل کی بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ متکلم اور تحریر کنندہ چینخ چینخ کرپکارتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میرا مطلب وہ نہیں جو آپ میرے عمل یا تحریر سے نکالتے ہیں لیکن ہم اس کی بات کو سننے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کے قول وفعل کو وہ غلط معنی پہناتے ہیں جس کا خود متکلم انکار کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا جسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انصار میں ایک آدمی تھا جو مسجد نبوی سے زیادہ دور رہتا تھا اور اس کا حال یہ تھا کہ وہ ہر نماز مسجد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتا تھا۔میں نے ایک دن اس سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تم اندھیری راتوں میں مسجد تک سواری کے لئے ایک گدھا خرید لو، تو وہ کہنے لگا” مجھے تو یہ بات پسند نہیں کہ میرا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہو“ حضرت ابی بن کعب کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی، میں نے اس بات کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو اس شخص کو بلایا گیا اور وضاحت طلب کی گئی تو اس نے وہی کچھ عرض کیا جو پہلے کہا تھا اور ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ میں نے ایسا اس لئے کہا کہ مجھے قدموں کا ثواب مل جائے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں وہی ثواب ملے گا جس کی تم نے نیت کی ہے۔(مسلم) اب بظاہر اس کی بات کا غلط مفہوم لگتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربت نہیں چاہتا،لیکن اس نے اس کی وضاحت کردی کہ میں پانچ وقت روزانہ پیدل چل کر اتنی دور سے آتا ہوں اس کا مجھے ثواب ملتا ہے۔(راہ محبت)

اس طرح کے اختلافی مسائل میں شیطان مسلمانوں کو افراط وتفریط میں مبتلا کردیتا ہے، ہر مکتبہ فکر میں اس طرح کے لوگ موجود ہیں جو بلاتحقیق غلط پروپیگنڈا کرکے اختلافات کو پھیلاتے اور تفرقہ بازی کے مرتکب ہو کر قرآنی حکم سے روگردارنی کررہے ہیں۔خاص طور پر علماءکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلاوجہ اور بغیر تحقیق کے کسی کی نیت پر حملہ آوار ہونے کے بجائے حسنِ ظن رکھیں تاآنکہ کھلم کھلا ثبوت نہ مل جائے۔علماءکو عام اجتماعات یا عام بیانات میں اختلافی مسائل کی تبلیغ یا تردید نہیں کرنی چاہیے، امرباالمعروف اور نہی عن المنکر صرف اور صرف متفقہ معروفات اور متفقہ منکرات میں ہوتا ہے، اختلافی مسائل تو ترجیحی مسائل ہیں،ان میں جو نظریہ اور رویہ جس کے نزدیک رائج ہے وہ اس کو اختیار کرلیتا ہے۔

سورہ انفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے مسلمانو اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور صبر کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(46) اتحاد واتفاق کے لئے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ صبر ہے، کیونکہ جب بھی بہت سے لوگ ایک ساتھ رہیں گے تو ان کے درمیان طرح طرح کی شکایتیں پیدا ہوں گی، ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے گی، کبھی کسی کی تنقید پرغصہ آئے گا،کبھی کسی کی ترقی پر۔اختلاف کوصبر کے ساتھ برداشت کرنے سے اتحاد وجود میں آتا ہے۔سورہ انعام میں فرمایا: اے مسلمانو خدا سے ڈرو، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو، اور اس میں متفرق نہ ہو، آپس میں اختلاف کرناآگ کے کنارے کھڑا ہونا ہے، خدا کے نزدیک وہی لوگ کامیاب ہیں جو خصوصی اہتمام کے ذریعہ ہر حال میں اپنے اندر اتحاد واتفاق کی فضا کو باقی رکھتے ہیں، اس سے پہلے خداوندی علم کی امانت یہود کو دی گئی تھی مگر وہ تفریق اور اختلاف میں پڑ گئے اور اس کے نتیجہ میں اپنے کو عذاب عظیم کا مستحق بنالیا۔ ان کے انجام سے ڈرو اور تم بھی انہیں کی طرح نہ جاو(102)

 اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اختلاف کی کوئی صورت پیدا نہ ہو، انسانوں کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے مگر جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہوں وہ معاملہ کی وضاحت کے بعد یا تو اپنے اختلاف کو ختم کردیتے ہیں اور اگر پھر بھی اختلاف باقی ہو تو وہ اس کو اپنے ذہن تک محدود رکھتے ہیں، عملی زندگی میں اس اختلاف کو پھیلا کر معاشرے کو خراب نہیں کرتے۔

مولانا زاہدالراشدی مدظلہ فرماتے ہیں: ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ مزاج راسخ ہوتا جارہا ہے کہ ہم نے جس کے خلاف کچھ کہنا ہوتا ہے، اس کا موقف اس سے نہیں پوچھتے بلکہ اس کی چند عبارات کو سامنے رکھ کر خود طے کرتے ہیں اور اگر وہ جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرے تو اسے یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ماضی میں یہ طرز عمل مولانا۔۔۔۔۔۔۔۔نے اختیار کیا تھاکہ علماءکی کتابوں سے اپنے مطلب کی چند عبارات منتخب کرکے ان سے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کیے تھے اور ان پر ایک استفتا کی بنیاد رکھ کر حرمین کے علماءکرام سے فتویٰ حاصل کیا۔ہمارے ہاں یہ مزاج بن گیا ہے کہ ہر اختلاف کو کفر واسلام کا معرکہ بنا لیا جاتا ہے، ہرجھگڑے کو 302کا کیس بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے چندواقعات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک معروف ومشہور اہل بدعت عالم جو اکابر دیوبند کی تکفیر کرتے تھے اور ان کے خلاف بہت سے رسائل میں بہایت سخت الفاظ استعمال کرتے تھے، ان کا ذکر آگیا تو فرمایا: میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ان کے متعلق معذب ہونے کا گمان نہیں، کیونکہ ان کی نیت ان سب چیزوں سے ممکن ہے کہ تعظیم رسول ہی کی ہو۔(مجالس حکیم الامت)ایک مرتبہ ان کی مجلس میں کسی نے کہا فلاں پیر صاحب بازاری عورتوں کو بھی مرید کرلیتے ہیں تو حضرت نانوتوی نے فورا خاموش کراتے ہوئے کہا، تم نے ان کی راتوں کو جاگ کر اللہ کے سامنے گریہ زاری نہیں دیکھی؟۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے سرسید احمد خان کے خلاف ایک فتویٰ آپ کو دستخط کرنے کے لئے پیش کیا، آپ نے کہا پہلے تحقیقات تو کرلو آیا وہ کافر ہے بھی یا نہیں؟ چنانچہ خود ہی سرسید احمد خان کی طرف تین سوال لکھے:۱۔خدا پر آپ کا عقیدہ کیا ہے؟۲۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کا عقیدہ کیا ہے؟۳۔قیامت کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ سرسید احمد خان نے جواب میں لکھا:۱۔خدا تعالیٰ مالک ازلی اور صانع تمام کائنات ہے،۲۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر،۳۔قیامت برحق ہے۔ تو پھر حضرت نانوتویؒ نے فرمایا تم اس شخص کے خلاف دستخط کروانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے؟۔

حضرت کے اس فیصلے کو آج کے مفتی شاید تسلیم ہی نہ کریں، لیکن حضرت کا اعتقاد اور مقام انہیں خاموش رکھنے کے لئے کافی ہے۔ بدقسمتی سے ایک طرف کوئی اعلی علمی اور قابل شخصیت ہوتی ہے لیکن اس کی باتوں کو اس لئے قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا کہ ہمارے علم میں یہ نہیں کہ اس کے اساتذہ کون ہیں، یا اگر ہیں تو وہ ہمارے خیال میں مستند نہیں ہیں۔ میں نے دو تین سال قبل ایسا ہی ایک استفتاءکسی معروف شخصیت جو اب اس دنیا میں نہیں ان کے بارے میں لکھا، میرا سوال یہ تھا کہ ان کی دو چار موٹی موٹی گمراہیاں بتادیں کیونکہ لاکھوں لوگ ان کی کتابیں پڑھتے اور ویڈیوز سنتے ہیں، یہ استفتاءدارالعلوم کراچی سمیت کئی بڑے بڑے جامعات کو بھیجاگیا۔ سوائے دارالعلوم کراچی کے کسی نے اس کا جواب دینا ہی نہیں دیا، اور دارالعلوم کراچی کے دارالافتاءسے جو جواب آیا وہ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی مدظلہم کا لکھا ہوا نہیں تھا بلکہ شاید ان کے علم میں بھی نہ ہو، بہر حال کسی مفتی صاحب نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے جواب میں محض اتنا لکھا کہ یہ شخص مستنداساتذہ اور مشائخ سے نہیں پڑھا ہوا لہٰذا اس کی کتابیں اور ویڈیوز نہیں دیکھنی چاہیے۔ یعنی سوال گندم، جواب جو۔ اس جواب سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ جواب دینے والا مفتی محض سنی سنائی بات پر جواب دے رہا ہے۔ آج فتوی دینے کا یہی معیار رہ گیا ہے کہ نہ تحقیق کرنی ہے اور نہ اس کے بارے میں معلومات لینی ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے مدارس میں یہ وباءپھوٹ پڑی ہے کہ ایک ایک سال کے مفتی کورس کروا کر سندیں بانٹی جارہی ہیں چنانچہ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کے مفتی یا لکیر کے فقیر ہیں یا سنی سنائی باتوں پر بغیر تحقیق کے فتوے جھاڑتے ہیں،فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قابلیت کیا چیز ہوتی ہے اس بارے میں انگریز جج کا واقعہ ملاحظہ کریں جو نہ دین اسلام سے واقف ہے اور نہ ہی قرآن وحدیث اور اسلامی قانون سے، سابقہ مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری محمد طیب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ایک مرتبہ اہلِ حدیث اور حنفیوں کے درمیان” آمین “ پر لڑائی ہوگئی، خوب مارکٹائی بھی ہوئی ، بالاخر اس کا کیس انگریز جج کے پاس گیا تو اس نے کہا یہ ”آمین“ کیا چیز ہے کوئی بلڈنگ ہے یا پراپرٹی ہے؟ لوگوں نے سمجھایا کہ ایک لفظ ہے، ایک فریق کہتا ہے حدیث میں ہے اسے بلند آواز سے بولنا ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے حدیث میں ہے آہستہ بولنا ہے۔ تو انگریز جج نے کہا جس کو جو حدیث معلوم ہے وہ اس پر عمل کرے، لڑتے کیوں ہو؟ اور پھر اس نے تفصیلی فیصلے میں لکھا: میں ساری تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاں ”آمین“ کی تین قسمیں ہیں، ایک آمین بالجہریعنی اونچی کہنا، دوسری آمین بالسر یعنی آہستہ کہنا،جبکہ تیسری آمین بالشر یعنی لڑنے کے لئے کہنا، لہٰذا عدالت دونوں فریقوں کوفلاں فلاں سزا سناتی ہے تاکہ آئندہ نہ لڑیں۔قاری طیب صاحب انگریز جج کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے بڑا دانشمندانہ فیصلہ لکھا، یہ تو ہمارے دلوں کا فساد ہے کہ ہم نے مسائل کو اپنے دل کے جذبات نکالنے کی آڑبنا لیا ہے اور ہر دین کا مسئلہ جھگڑا ڈالنے اور گروہ بندیوں کے لئے رہ گیا ہے(خطابات)۔جی ہاں مفتی کی حیثیت بھی جج کی سی ہوتی ہے بس فرق یہ ہے کہ جج کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے اور انتظامیہ اس پر عمل درآمد کرواتی ہے، جبکہ مفتی کا کام صرف رہنمائی کرنا اور بتانا ہوتا ہے نافذ وہ نہیں کرسکتا۔اس انگریز جج نے اس معاملے کو ویسے ہی نہیں ٹال دیا بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مطالعہ کیا، تحقیقی کی، لوگوں سے معلومات اکھٹی کیں اور پھرایسا دانشمندانہ فیصلہ دیا کہ معاشرے میں اختلاف نہ پھیلے بلکہ لوگ متفق ہو کر رہیں اور آپس میں جھگڑا نہ کریں۔

 قاری طیب صاحبؒ ملتان میں خیر المدارس میں آئے جلسے سے خطاب کیا اور پھر پوچھا یہاں ملتان میں کوئی اور عالم ہیں؟ بتایا گیا کہ مولانا محمد بخش ہیں لیکن بریلوی فرقے سے تعلق ہے، تو مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری طیب ؒ نے فرمایا: ہم انہیں فرقہ ہی نہیں سمجھتے، نہ ہم فرقہ نہ وہ فرقہ۔ اور پھر سب کے منع کرنے کے باوجود ان کی مسجد میں گئے اور ملاقات کی۔اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: میں ہمیشہ اس کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ بھئی منافرت مت پیدا کرو، اپنی رائے ہے، اگر آپ دیانةً صحیح سمجھتے ہو تو اس پر عمل کرو، لیکن نفرتیں پیدا کرنا یہ صحیح نہیں(خطبات حکیم الاسلام ج۵ص۴۲۲)

مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ”وحدت امت“ میں ایک واقع لکھتے ہیں کہ: ایک مرتبہ صبح نماز فجر کے وقت اندھیرے میں، مَیں سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ کے پاس حاضر ہوا تو دیکھا کہ حجرت سر پکڑے ہوئے بہت مغمم بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا حضرت کیسا مزاج ہے؟ کہا ہاں ٹھیک ہی ہے، میاں مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی۔میں نے کہا حضرت آپ کی ساری عمر علم کی خدمت اور دین کی اشاعت میں صرف ہوئی ہے، اگر آپ کی عمر ضائع ہوئے تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟فرمایا تمہیں صحیح کہتا ہوں عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا حضرت آخر بات کیا ہے؟ فرمایا: ہماری عمر کا ہماری تقریروں کا ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں۔۔۔۔۔۔اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟۔۔۔۔۔۔۔پھر فرمایا: ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطا؟۔۔۔۔۔۔قبر میں بھی فرشتے نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین۔ ۔۔۔۔۔ اللہ نہ امام شافعی کو رسوا کرے گا نہ امام ابوحنیفہ کو۔۔۔۔۔۔۔۔تو جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں اور نہ محشر میں، اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی۔(نوٹ: یہ کافی طویل تقریر ہے جس میں سے کچھ کچھ اقوال ذکر کیے ہیں،رسالہ وحدت امت مطالعہ کریں)۔

مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک اس جنگ وجدل کا ایک بہت بڑا سبب فروعی اور اجتہادی مسائل میں تخرب وتعصب اور غلو ہے۔۔۔۔بعض حضرات کا غلو تو یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کی نماز کو فاسد اور اُن کو تارکِ قرآن سمجھ کر اپنے مخصوص مسلک کی اس طرح دعوت دیتے ہیں جیسے کسی منکر اسلام کو اسلام کی دعوت دی جارہی ہو۔معلوم نہیں یہ حضرات اسلام کی بنیادوں پر چاروں طرف سے حملہ آور طوفان سے واقف نہیں ؟۔۔۔۔۔۔اور اگر محشر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سوال کرلیا کہ میرے دین اور شریعت پر اس طرح کے حملے ہورہے تھے تم وراثتِ نبوت کے دعوے دار کہاں تھے؟ تو کیا ہمارا یہ جواب کافی ہو جائے گا کہ ہم نے رفع یدین کے مسئلے پر ایک کتاب لکھی تھی۔۔۔۔۔۔ہماری دینی جماعتیں جو تعلیم دین یا ارشاد وتلقین یا دعوت وتبلیغ کے لئے قائم ہیں۔۔۔۔اگر یہی متحد ہو کر تقسیم کار کے ذریعہ دین میں پیدا ہونے والے تمام رخنوں کے انسداد کی فکر کرنے لگیں اور اقامت دین کے مشترک مقصد کی خاطر ہر جماعت دوسری کو اپنا دست وبازو سمجھے تو یہ مختلف جماعتیں اپنے اپنے نظام میں الگ الگ رہتے ہوئے بھی اسلام کی ایک عظیم الشان طاقت بن سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ علمی غلو ہر جماعت میں یہ پایا جاتا ہے کہ اپنے مجوزہ نظام عمل کو مقصد منصوص کا درجہ دے دیا گیا جو شخص اس نظام عمل میں شریک نہیں اگرچہ اس کا مقصد کتنا ہی عظیم ہو اس کو اپنا بھائی نہیں سمجھا جاتا، اور اگر کوئی اس نظام عمل میں شریک تھا پھر الگ ہوگیا تو عملا اسے اصل مقصد سے منحرف سمجھ لیا جاتا ہے اگرچہ وہ اصل مقصد یعنی اقامتِ دین کی خدمت پہلے سے بھی زیادہ کرنے لگے۔(وحدت امت)

مفتی شفیع رحمہ اللہ کی اس دلسوز تقریر میں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس سمت جارہے ہیں، کہیں کوئی نادیدہ ہاتھ مخیرحضرات کی شکل میں فنڈ دے کر فرقہ واریت اور باہمی اختلافات کو ہمارے ذریعے سے جاری تو نہیں رکھ رہا، تاکہ دینی طبقہ اسی فضول کام میں لگا رہے اور اقامت دین کی جدوجہد کی طرف اس کا دیہان ہی نہ ہو، یاد رکھیں ایسے مخیرحضرات کے پیچھے مقامی ہاتھ بھی ہوتا ہے اور بیرونی بھی۔ذرا دیہان سے!

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.