بیعت کی شرعی حیثیت
بسم الله الرحمن الرحیم
بیعت کی شرعی حیثیت
الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى
اما بعد
قال الله تبارک و تعالی فی القرآن المجيد وَّاتَّبِعُ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ
سبحن ربک رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العلمين
اللھم صلّ على سيدنا محمد وعلى آل سید نا محمد و بارک وسلم . ان الدین عند الله السلام ) اللہ جل شانہ کے نزدیک کامیابی کا ذریعہ ،صرف اور صرف فقط اسلام ہے اور دین اعتدال کا نام ہے۔ خیر الامور اوسطها بہترین امور وہ ہیں جو درمیانی راستے پہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز میں جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ مانگتے ہیں، یہ صراط مستقیم بھی اس اعتدال والے راستے کا نام ہے۔
دین اعتدال کا نام ہے
چنانچہ اصل السنت والجماعت صراط مستقیم کے راستے یہ کس طرح ہیں؟ اعتدال پر کیسے ہیں؟ نہ تو یہ اس غلو پر ہیں جو بعض لوگوں کو ہوا کہ انسان اپنے اعمال کے اندر بالکل
مجبور محض ہے۔ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ پھر ہے۔ اس امت کے اندر بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جن کا نظریہ یہ تھا کہ انسان مجبور محض ہے ، بس اللہ نے جس کے لیے جو لکھ دیا ، جنت کا لکھ دیا اس نے جنت میں جانا ہے اور جس کے لیے جہنم کا لکھ دیا اس نے جہنم میں جانا ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسان مختار کل ہے جو چاہے کرے وہ بالکل آزاد ہے۔ یہ دونوں بالکل extreme end ہیں۔ ایک اس end پر، ایک اس end پہ ہے ۔ ہم بیچ میں ہیں ۔ نہ تو ایسا ہے، کہ انسان مجبور محض ہے اور نہ ایسا ہے کہ انسان مختار کل ہے اللہ کے ایک حد تک اس کو اختیار کی آزادی ہے۔ اور ایک حد تک مجبور ہے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے، پوچھا گیا کہ انسان کو کس حد تک اختیار ہے؟ فرمایا : کہ ایک ٹانگ کھڑی کرلو، ایک ٹانگ کھڑی کر لی ، کہا کہ دوسری بھی کھڑی کر لو۔ کہا کہ یہ تو نہیں کھڑی کر سکتا، کہا: بس انسان کو بھی اس حد تک اختیار ہے اور اس حد تک مجبور ہے۔
اسی طرح سے ایک ، ان لوگوں کا نظریہ ہے جنہوں نے غلو کیا اور اللہ کی محبت میں کہ لیں، اتنا غلو کیا کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنادیا اور ایک وہ لوگ بھی تھے کہ جنہوں نے بالکل ہی سرے سے غلو کرتے ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام کا انکار کر دیا۔ وكل آمن باللهِ وَبِرَسُولِهِ کہ ہم ایمان لاتے ہیں تمام رسولوں ہے۔ فلو بھی نہیں کرتے ہیں۔ مانتے ہیں، کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ کے بیٹے نہیں ہیں۔ تو دین کی آپ جس تعلیمات کو بھی دیکھیں گے اس میں اعتدال ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے معاملے میں بھی دو گروہ ہوئے ۔ ایک انتہا پہ گیا، ایک دوسری انتہا پہ گیا ۔ ایک وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نعوذ باللہ سرے سے ماننے سے انکار کر دیا، اور ایک وہ لوگ ہوئے ہیں کہ جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں انہوں نے اتنا غلو کیا کہ نعوذ باللہ انہوں نے
Baiat ki Shari Haisiyat
By Dr. Mufti Hammad Fazal