تجارتی سود
باب اول
ربا کی قسمیں تجارتی سود کے متحقق ہونے کی شرائط
سود کی دو بنیادی قسمیں
ربا (سود) کی دو بڑی قسمیں ہیں :
الف: قرض پر مشروط نفع حاصل کرنا۔
ب خرید و فروخت کی بعض مخصوص صورتوں میں ایک جانب سے زیادہ چیز دینا
شخص یا ادھار معاملہ کرتا۔ ان میں سے پہلی قسم کا تعلق قرض کے ساتھ ہے کہ ایک دوسرے سے قرض لیتا ہے اور اس پر نفع کی شرط لگا کر اصل رقم سے کچھ زیادہ نفع حاصل کرتا ہے ، اس لئے اس کو “ربا القرض ” کہا جاتا ہے ، اور چونکہ دور جاہلیت میں اسی قسم کا رواج زیادہ تھا اور قرآن کریم نے بھی پہلے درجہ میں اسی کی ممانعت و مذمت فرمائی ہے ،اس مناسبت سے اس کو “ر بالقرآن “اور “ر با الجاہلیت ” بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم کا تعلق خرید و فروخت کی بعض خاص صورتوں کے ساتھ ہے جن میں شرعی لحاظ سے برابری یا نقد در نقد معامله انجام دینا ضروری ہوتا ہے اور معاملہ کرنے والے اس میں کوتاہی کرتے ہیں، چونکہ اس قسم کا تعلق خرید و فروخت کے ساتھ ہے اس مناسبت سے بعض اوقات اس کو ربا البیوع ” سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہاں آسانی کے لئے اس کو “تجارتی سود ” سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس تحریر میں
اصلا سود کی اسی قسم سے متعلق چند ضروری باتیں لکھنی مقصود ہے۔
تجارتی سود کی دو قسمیں
سود کی جس قسم کو یہاں تجارتی سود کے عنوان سے ذکر کیا جارہا ہے ،اس کی بنیاد “صحیح مسلم ” وغیرہ مصادرِ حدیث کی مشہور روایت ہے جس میں چھ چیزوں کے باہم لین دین کا حکم ذکر کیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے ہر چیز اپنے ہم جنس چیز کے بدلے فروخت کی جائے تو ضروری ہے کہ دونوں طرف سے ملنے والی چیزیں مقدار میں برابر ہو اور معاملہ بھی ہاتھ درہاتھ ہو، اگر ایک ہی جنس کی چیزوں کا لین دین نہ ہو بلکہ ان میں سے دو مختلف جنس کی چیزوں کو آپس میں ایک دوسرے کے عوض فروخت کی جائے تو برابری ضروری نہیں ہے تاہم معاملہ کا نقد ہونا پھر بھی ضروری ہے۔ ظواہر اور منکرین قیاس کے علاوہ تقریبا سب مجتہدین کرام کے ہاں اس حدیث میں “ربا” کا جو حکم ذکر کیا گیا ہے ، وہ انہیں چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد کسی علت پر ہے اور وہ علت ان چھ کے علاوہ جن چیزوں میں بھی موجود ہو گی ،ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو اس حدیث شریف میں مذکور ہے۔ البتہ وہ علت کیا اور کونسی ہے ؟ اس میں حضرات مجتہدین کرام کی آراء مختلف ہو گئیں ، ہمارے فقہائے حنفیہ کے ہاں اس کی علت درج ذیل دو چیزیں یا ان کا مجموعہ ہے :
الف : اتحاد جنس۔ یعنی دو چیزوں کے جنس کا ایک ہونا۔
ب : اتحاد قدر۔ یعنی دو چیزوں کے ناپ تول کے پیمانے کا ایک ہونا۔
اب اگر کہیں یہ دونوں باتیں موجود ہوں یعنی جن دو چیزوں کا باہم تبادلہ مقصود ہو ، ان دونوں کا جنس بھی ایک ہو اور دونوں کے ناپ تول کا پیمانہ بھی ایک ہو ، تو اس تبادلہ کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ : نہ ہو۔
الف : دونوں طرف سے ملنے والا عوض برابر ہوں، کسی طرف بھی کوئی کمی بیشی
ب معاملہ ہاتھ درہاتھ یعنی نقد ہو ۔ اگر پہلی شرط کا لحاظ نہ رکھا جائے یعنی دونوں چیزوں میں سے کسی ایک طرف کوئی کمی بیشی ہو تو اس کو “ر باالفضل “کہا جاتا ہے اور اگر دوسری شرط مفقود ہو تو اس کو “ربا النسیی ” کہا جاتا ہے۔
اگر کہیں دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات پائی جائے یعنی یا تو صرف دونوں چیزیں ہم جنس ہوں اور قدر میں دونوں مختلف ہوں کہ ایک ناپ کر فروخت کی جاتی ہے اور دوسری چیز تول کر اور یا قدر میں تو دونوں ایک جیسے ہوں لیکن دونوں کا جنس مختلف ہو تو ان دونوں صورتوں میں پہلی شرط تو ضروری نہیں ہے لیکن دوسری بہر حال لازم ہے یعنی ایسی چیزیں اگر باہم کمی بیشی کے ساتھ فروخت کی جائیں تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن
معاملے کا ہاتھ درہاتھ ( نقد ) ہو نا ضروری ہے۔
ادھار کے سود ہونے پر ایک اشکال وجواب :
اس پر بعض لوگوں کی جانب سے یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ ادھار کے ناجائز ہونے کی وجہ سے اگر با اور فضل کا خطرہ ہے تو پھر تفاضل (کمی بیشی) کی یقینی شکل کیونکر جائز ہوسکتی ہے ؟ نسئیہ کو تو تفاضل کے خطرہ کی وجہ سے ناجائز کہا جاتا ہے لیکن جس صورت میں یقینی طور پر تفاضل موجود ہے، اس کی صاف لفظوں میں اجازت دی جاتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس کے جواب میں متعد در اہل علم نے دونوں کے درمیان مختلف فروق ذکر فرمائے ہیں اور اس صورت میں نسیئہ (ادھار) کے ناجائز ہونے کی کچھ حکمتیں اور مصالح بھی ذکر فرمائے ہیں، لیکن اصل بات اور بنیادی جواب یہی ہے کہ ہم نصوص کے پابند ہیں اور اسی بناء پر مسلمان اور مؤمن بالغیب کہلاتے ہیں، اگر کہیں کسی منصوص بات کی طرف ہماری محدود عقل کی
Tijarati Sood By Mufti Ubaid ur Rahman