تذکرہ مولانا قاری صدیق احمد باندوی
تذکرہ مولانا قاری صدیق احمد باندوی
تالیف: مفتی اختر امام عادل قاسمی
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دار العلوم حیدرآباد میں مدرس تھا، ۱۶ / ربیع الاول ۱۳۱۸ھ ہجری کو دارالعلوم کا امتحان ششماہی ختم ہوا اور ہم ایک سفر پر روانہ ہو گئے ، اس سفر میں میرے ساتھ جناب مولانا قمر الہدی صاحب بھاگلپوری ، حافظ شہاب الدین صاحب سلطانپوری اور جناب مولانا نور الدین صاحب اعظمی شامل تھے۔
چند گھنٹے بھوپال میں ہماری پہلی منزل بھوپال تھی، قاضی و جدی الحسینی کا شہر ، نواب صدیق حسن خان کی سرزمین ، مگر یہ منزل محض سرسری تھی، اس کو منزل کے بجائے ہمارے اس سفر کا اکسچینج ہاوس کہنا زیادہ مناسب ہو گا، دکن اکسپر یس کو بھوپال میں اس لئے چھوڑنا پڑا کہ وہاں سے دوسری ٹرین ” تلسی اکسپر میں ” سے ” ہمیں باندہ جانا تھا، ان دونوں ٹرینوں کا درمیانی وقفہ چند گھنٹوں کا تھا، ان چند گھنٹوں کے لئے بھوپال ہماری منزل تھی، مگر یہ چند گھنٹے ہمارے اس سفر میں کافی اہمیت رکھتے ہیں، ایک تاریخی سرزمین ، عہد ماضی کی ایک شاندار اسلامی ریاست ، نوابوں اور رئیسوں کا مسکن و مدفن ، اپنے وقت میں علماء اور دانشوروں کا مرکز ، مسجدوں کا شہر ، دعوت و تبلیغ اور علم و فن کا مستقر ۔۔۔۔ اور خاص بات یہ کہ جغرافیائی لحاظ سے پورے ہندوستان کا دل ، بھوپال مدھیہ پردیش کا دار الحکومت ہے ، مدھیہ کے معنی پیچ کے آتے ہیں ، یعنی جغرافیائی طور پر یہ علاقہ پورے ہندوستان کا سینٹر ہے۔
نہ معلوم بہار اور دلی سے حیدر آباد جاتے ہوئے کتنی بار اس شہر کے اسٹیشن سے گذر نا ہوا تھا، مگر زندگی کے تیز رفتار سفر میں کسی آئے ہوئے لمحے کی طرح یہ گذر گیا تھا، اور اس کی یادوں کے نقوش شام کے دھند لکے میں گم ہوتے ہوئے نقطے کی طرح کھو گئے تھے ، کبھی اس کا اتفاق نہیں ہوا کہ اس قلب ہندوستان پر کچھ دیر رک کر اس کی دھڑکنیں سنوں، اس کے تاریخی کھنڈرات سے اس کے احوال معلوم کروں ، اس خاک کے ذروں سے عہد ماضی کا اجالا مانگوں اور شہر خموشاں کی دیواروں پر اس کے عہد درخشاں کی تاریخ پڑھوں۔
Tazkira e Maulana Qari Siddiq Ahmad Bandvi
By Mufti Akhtar Imam Adil