تصورات قرآن
ڈاکٹر سید عبدالطیف تصوارت قرآن
دیباچه
تقریباً انیسویں صدی کے وسط سے علمائے اسلام نے قرآن کو دنیائے جدید کے آگے نئے انداز سے پیش کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا بیشتر حصہ چاہے وہ تفاسیر تنقیدی تحقیق کی شکل میں ہو یا مختلف رسائل یا جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کی شکل میں اردو عربی اور انگریزی میں پایا جاتا ہے۔ اظہار خیال کے لیے خواہ کوئی زبان استعمال کی گئی ہو۔ بہر صورت ان کوششوں کا ما حصل اطمینان بخش نہیں ہے۔ عصر جدید کے ان علمانے زیادہ تر اس بات کی سعی فرمائی ہے۔ کہ قرآنی مطالب کو یورپی کلچر کے فکری سانچوں میں ڈھال کر پیش کیا جائے جس طرح سے قرن اولی کے بعض مفسرین نے یونانی علوم کے عربی ترجموں سے متاثر ہو کر قرآنی مطالب کو یونانی فلسفہ و فکر کا لباس پہنانے کی کوشش کی البتہ شاذ و نادر ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں اور صرف کہیں کہیں ایسے گوشے اُبھرتے ہیں جہاں قرآنی تعلیمات اپنی حقیقی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ ان جدید علماء اور مفسرین نے قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کرنے کی کوئی مستقل کوشش نہیں کی۔ دور جدید کے علماء کی مساعی سے متاثر ہو کر حال ہی میں قدامت پسند علما نے بھی تفہیم قرآن کے تعلق سے بلاشبہ خود کو جدید طرز فکر کے حامل ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن صدیوں سے مسلمانوں کی نمذہبی فکر پر قرون وسطی کی قدامت پسندی کا جو بھاری بوجہ مساط تھا۔ اس سے وہ چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ البتہ ۱۹۳۰ء میں پہلی مرتبہ امید کی ایک کرنا دکھائی جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن” کی پہلی جلد منظر عام پر آئی جس کا پہلا حصہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر پرمشتمل ہے۔ اور جس میں قرآنی عبارت کو اس کے اصلی معنی میں پیش کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا طریق اظہار ہے جو نہایت سیدھا سادا ہے نہ تو اس میں کوئی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ کسی قسم کا تصنع ۔ وہ انسان کے فطری احساس و فکر اور زندگی کے روز مرہ کے تجربوں کو اپیل کرتا ہے گویا وہ خدا اور بندہ کے درمیان راست بات چیت ہے جو ایسی زبان میں ہے جسے ایک عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ قرآن میں وہی اسلوب بیان اختیار کیا گیا ہے۔ جو تمام الہی صحائف کا ہے۔ لیکن قرآن کا یہ طریق اظہار اپنی اہمیت کے باوجود عہد ماضی میں شاذ و نادر ہی کسی دار العلوم یا اسلامی درسگاہ میں مطالعہ وفکر کا کوئی مستقل موضوع بن سکا۔ حالانکہ خود قرآن نے ان الفاظ میں رہنمائی فرمائی ہے۔ فَذَكِّرُ بِالْقُرآن (۴۵-۵۰) قرآن کو قرآنی انداز میں سمجھاؤ لیکن تاریخ کے کسی دور بجز صدر اول کے اس رہنمائی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ قرآن کے ساتھ حزبینہ یہ پیش آیا۔ کہ جوں ہی اس پر ایمان لانے والوں کی پہلی نسل ختم ہوئی بلکہ دوسری صدی ہجری کے اختتام سے قبل ہی یونانی فلسفہ و علوم کے ترجموں کی بدولت مسلم فکر پر یونانی فکر کا اثر غالب آنے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فہم قرآن کے ابتدائی انداز کی سادگی مفقود ہوتی گئی اور اس کی جگہ منطقی دقیقہ سنجیاں راہ پانے لگیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ علمائے اسلام نے قرآن کی ایسی تفاسیر لکھنا شروع کر دیں۔ جن میں قرآن کے الفاظ کو ایسے معنی و مفہوم پہنانے لگے۔ جن کے حامل نہیں تھے۔ مولانا نے ترجمان القرآن کے پہلے ایڈیشن کے
دیباچہ میں ان امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
Tasawurat E Quran
Read Online
By Dr Syed Abdul Latif (DB)
Download