تقریب التہذیب شرح اردو شرح تہذیب

تقریب التہذیب شرح اردو شرح تہذیب

تقریب التہذیب شرح اردو شرح تہذیب

تقریب التہذیب شرح اردو شرح تہذیب تالیف: مفتی حبیب اللہ قاسمی

پیش لفظ

مفتی حبیب اللہ قاسمی

منطق جملہ علوم وفنون میں ایک ایسا دقیق فن ہے جس سے بعض حضرات نے اتنی دوری بنائی کہ اس فن سے اشتعال ہی کو لغو کام قرار دیدیا اور بعضے حضرات نے اپنے موقف میں اتنی شدت اختیار کی کہ “يجوز الاستنجاء باوراق المنطق تک لکھ ڈالا، لیکن ہمارے اکابرین و اسلاف کے نصاب و نظام تعلیم میں ہمیشہ منطق و فلسفہ کا عمل و دخل رہا، چونکہ اسلام تلاش و جستجو تحقیق و تدقیق، سائنس و فلسفہ کا مخالف نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم نے تو آیات نفسی اور آیات آفاقی اور ارض و سماء کی مخلوقات میں غور فکر اور تدبر کا حکم دیا ہے، لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ دینی وجدان کی حفاظت و نگہبانی بہر حال ضروری ہے، اس لئے کہ وہ عقلیت جو دینی وجدان کے سائے میں پرورش نہ پائے وہ ملی زندگی کو لادینیت کی طرف لے جاتی ہے اور اعتقاد و یقین کی جگہ شرک و انکار اور دہریت لے لیتا ہے، یونانی علوم سے مسلمانوں کا سب سے پہلے تعارف فتح مصر کے بعد ہوا، اسکندریہ یونانی علوم کا مرکز تھا، بنی امیہ کے زمانے میں صرف طب کی طرف توجہ کی گئی اور اسی سے متعلق کچھ کتابیں عربی زبان میں منتقل کی گئیں لیکن خلافت عباسیہ کے دور میں دوسرے یونانی علوم بھی آہستہ آہستہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بننے لگے،

چنانچہ خلیفہ ہارون رشید نے بیت الحکمت نامی ایک ادارہ قائم کیا جس میں غیر عربی کتابوں اور علوم و فنون کو عربی زبان میں منتقل کرنے کا نظم کیا گیا لیکن یونانی فلسفہ کی گرم بازاری خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں شروع ہوئی ، اس نے قیصر روم کو خط لکھا کہ ارسطو کی جس قدر کتابیں دستیاب ہوں بغداد بھیج دی جائیں۔ چنانچہ قیصر روم نے تلاش بسیار کے بعد ایک بڑے ذخیرے کا پتہ لگالیا لیکن اتنی کتابوں کے بھیجنے میں قیصر روم کو تامل تھا، ارکان دولت سے مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ کوئی حرج نہیں یہ پورا ذخیرہ مسلمانوں کے پاس بھیج دیا جائے، کیونکہ فلسفہ اگر مسلمانوں کے پاس پہونچ گیا تو ان کا مذہبی زور ٹھنڈا ہو جائے گا، اور عقلیت کی وجہ سے وہ تشکیک کے شکار ہو جائیں گے، چنانچہ پانچ اونٹ پر لاد کر وہ تمام کتابیں مامون الرشید کی خدمت میں پہنچا دی گئیں، مامون الرشید نے یعقوب بن اسحق کندی کو ان کتابوں کی تعریب کی ذمہ داری سونپی اور مزید کتابوں کی جستجو کے لئے بیت الحکمت کے ذمہ داروں کو روم، آرمینیا، مصر، شام، وغیرہ بھیجا، مامون الرشید کی اس دلچسپی کو دیکھ کر درباریوں میں فلسفہ کے سلسلہ میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہو گیا اور ہر طرف فلسفہ کی کتابوں کی جستجو شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا ذخیرہ حکمت وفلسفہ کی کتابوں کا جمع ہو گیا، اس کے بعد مامون الرشید نے اس فن کی ترویج و اشاعت کے لئے ہفتہ میں ایک دن یعنی ہر منگل کو باضابطہ پوری گرمجوشی کے ساتھ فلاسفہ اور علماء کا مناظرہ شروع کر وا دیا، پھر اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا تھا وہ ہوا، چنانچہ کچھ ہی عرصہ کے بعد مامون الرشید معتزلی ہو گیا اور حدوث قرآن کا قائل ہو گیا، اس طرح حکمت و فلسفہ اپنے دور شباب میں داخل ہو گیا اور فرقہ جہمیہ نے اسی وقت جنم لے لیا، چنانچہ اس فرقہ کو بھی شاہی عطایا و تحائف سے نوازا گیا، مامون کے بعد جب واثق تخت نشیں ہوا تو فلسفہ و حکمت کو مزید توانائی ملی اور عقلیت کی جڑیں اور مضبوط ہو گئیں لیکن جب متوکل کا زمانہ

آیا تو حق کو جلا ملا اور اس ابتلاع عظیم سے امت کو نجات ملی اور سنت کا احیاء شروع ہوا۔ الغرض فلسفہ و حکمت کے انہی فسادات کی وجہ سے بہت سے علماء حق اس کے مخالف ہو گئے حتی کہ نصاب سے بھی اس کو خارج کر دیا اور بعضوں نے اس کو باقی رکھتے ہوئے اس کا عقلیت ہی سے دندان شکن جواب دیا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ یہ فن جہاں مفید ہے وہیں مضر بھی ہے، ضرر کے باوجود ایک طویل زمانے سے عقلیت کا نفوذ چلا آ رہا ہے اور ہمارے بہت سے اکابرین نے اس کی افادیت کو تسلیم بھی کیا ہے ، بعض بزرگوں سے تو یہ بھی منقول ہے کہ میں بخاری شریف پڑھانے میں جتنا اجر سمجھتا ہوں اتنا ہی اجر منطق و فلسفہ پڑھانے میں بھی سمجھتا ہوں، بعض بزرگوں سے تو سلم العلوم جیسی دقیق کتاب کا بھی حفظ ثابت ہے اور سو مرتبہ زبانی پڑھنا بھی مسموع ہے۔

بہر حال اس فن کی دقت و لطافت سے کسی کو انکار نہیں، چنانچہ کسی زمانہ میں نئے اساتذہ کے علمی امتحان کے لئے منطق و فلسفہ کے درس کا انتخاب کیا جاتا تھا، چنانچہ جب یہ خادم حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب جونپوری علیہ الرحمہ کی خواہش و طلب پر ۱۹۸۰ء میں مدرسہ ریاض العلوم گورینی جونپور پہونچا تو پہلے ہی سال میزی کے ساتھ شرح تہذیب کا درس اس خادم کے سپرد کیا گیا اور چند سالوں کے بعد سلم العلوم، بیضاوی، شرح عقائد، سراجی مختصر المعانی جیسی اہم اور فنی کتاب میں تسلسل کے ساتھ سپرد ہوتی رہیں اور ہر کتاب کا الحمدللہ فنی اعتبار سے حق ادا کیا جس کے شاہد ہزاروں تلامذہ ہندوستان میں موجود ہیں۔ ان فنون میں خاص طور پر فن منطق و فلسفہ سے ایک طویل عرصہ تک وابستگی رہی، چنانچہ درس کا ماحصل حبیب العلوم شرح مسلم العلوم کے نام سے طبع ہو کر طلبہ واساتذہ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے، اس وقت ” تقریب التہذیب شرح شرح تہذیب کا درسی افادہ برائے استفادہ عزیز طلبہ کی خدمت میں پیش ہے۔ مجھے امید ہے کہ مطالعہ کے بعد فنی جو گہرائی اس کتاب میں ملے گی اس کو پا کر ضرور وہ خادم کو دعائیں دیں گے۔

دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ جملہ تصنیفات کی طرح اس کو بھی قبول فرمائے اور جن اساتذہ سے اس خادم نے استفادہ کیا ہے اللہ پاک ان کی عمر دراز فرمائے اور صحت وعافیت کے ساتھ تادیران کا سایہ امت پر قائم و دائم رکھے۔ اردو جو دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔

فقط

مفتی حبیب اللہ قاسمی شیخ الحدیث وصدر مفتی بانی جامعہ اسلامیہ دارالعلوم مہذب پور، سنجر پور اعظم گڑھ، یوبی

۲۳ جمادی الاولی ۱۴۴۵ه مطابق ۸ دسمبر ۲۰۲۳ء یوم جمعہ

Taqrib al Tahzib Urdu Sharh Sharh e Tahzib

By Mufti Habibullah Qasmi

Read Online

Download (11MB)

Link 1      Link 2

 

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.