تقلید کے شکار
حامدا ومصليا
حرفے چند
یہ کوئی مستقل کتاب نہیں، بلکہ کتاب چہ بھی نہیں محض ایک مختصر سا مضمون ہے، جو میرے مشفق و کرم فرما جناب حافظ ادریس صاحب قریشی ندوی کے حکم پر تحریر کیا گیا ، انھوں نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا، جو اہل حدیث کے تعارف پر مبنی ہے، حافظ صاحب نے مجھ سے اس کا جواب آڈیو فورمیٹ میں بنانے کو کہا تھا، میں نے اس کا یہ جواب آڈیو میں ہی بھیج دیا تھا، پھر محسوس ہوا کہ اس مضمون کو کتا بچہ کی شکل میں محفوظ کرنے سے اس کا فائدہ بھی دو چند ہوگا اور انشاء اللہ یہ دیر پا بھی رہے گا ، اسی احساس کے پیش نظر اس کا یہ ایڈیشن شائع کر دیا۔ اہل حدیث کے تعارف پر مبنی یہ ویڈیوکرمی جناب شیخ عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم سامرودی کا ہے جو کراچی کے بروج انسٹی ٹیوٹ میں تفسیر وحدیث کے استاذ ہیں، مجھے بروج کی لمی ویب سائٹ پر تو یہ ویڈیو نہیں ملی، البتہ بروج انسٹی ٹیوٹ کے یو ٹیوب چینل پر یہ ویڈیو سوال وجواب کے عنوان سے تقریباً دس منٹ کی موجود ہے، پونے سات منٹ میں انھوں نے اہل حدیث کا تعارف بیان کیا ہے، اس مضمون اسی پر چند گذارشات پیش کی گئی ہیں۔ آڈیو والی گفتگو میں چند ترامیم واضافات بھی کئے گئے ہیں لیکن ان سے نفس مضمون پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا، کتاب کی سیٹنگ، یا کسی جملے کی وضاحت کیلئے ان کو بڑھایا گیا ہے کتاب کی زبان و بیان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا مقصد شیخ حنان صاحب دامت برکاتہم پر تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ ایک اصولی گفتگو ہے، میں خود بین المسالک وسعت ذہنی کا حمایتی ہوں ، مسلک کے سلسلے میں تشدد یا جمود کو ، حدیث کے مقابلے میں تقلید کے لزوم کو غلط نا جائز و حرام سمجھتا ہوں، دین کا اصل سرچشمہ قرآن وسنت کو قرار دیتا ہوں، فقہ کو اسی تصریح کہتا ہوں ، نہ کہ دین حنیف کی کوئی الگ شق ، فقہ اور فقیہوں کے تمام دعوؤں اور موقفات کو اسی ترازو میں تو لنا لازم سمجھتا ہوں، اسی معیار پر پرکھنے کو واجب جانتا ہوں ، اور جہاں وہ اس معیار سے الگ ہوتے ہوں وہاں خود بھی ان سے علیدگی اختیار کرنا فرض سمجھتا ہوں، لیکن اس سلسلے میں تقلید کو قطع راہ نہیں دیتا، یعنی میں کسی دوسرے کے کہہ دینے بھر سے اپنے موقف سے نہیں ہٹتا بلکہ خودا حادیث کا تتبع کرتا ہوں۔
ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ کام ہر شخص کا نہیں ہے کہ وہ مکمل علم حدیث حاصل کر کے خود مجتہد بنے ، یہ امر ممکن بھی نہیں، ضروری بھی نہیں اور مفید تو قطعا نہیں ، خود نبی کریم صلای سی ایلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ایک دوسرے سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرام کی جماعت میں بھی ہر شخص نہ تو فقیہ تھا، نہ مفسر اور نہ محدث ، ان کے الگ الگ میدان تھے، کوئی جنگی میدان کا شہسوار تھا، کوئی امن و صلح میں فنکار، کوئی تجارت کے میدان کا ماہر تھا، کوئی زہد وریاضت میں طاق ، کوئی وعظ و تقریر میں جادو جگاتا تھا، توکوئی شعر و شاعری میں مشاق، کوئی علمی میدان میں بے نظیر تھا، تو کوئی سیاسی تدابیر میں بے مثال، پھر علمی میدان والوں کی بھی الگ الگ فیکلٹیاں تھیں، بعض علم تفسیر میں ممتاز تھے، بعض علم فقہ میں ، بعض حفظ حدیث میں نرالے تھے بعض علم قرآت میں یکتا ، تو کوئی قضا میں لا جواب تھا، ان تمام لوگوں کا مرجع و ماوی ایک ہی تھا، ذات رسول صل الی ہیں ، یہ سب اسی ایک سرچشمہ سے نکلنے والی دھار میں تھیں، سب ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے ، ایک دوسرے کو مانتے تھے سراہتے تھے۔
معلوم ہوا کہ جس طرح قرآنی علوم زمانہ رسالت سے چلے آرہے ہیں اسی طرح ایک دوسرے سے استفادہ کا رواج و طریقہ بھی اسی وقت سے چلا آرہا ہے، اور اسی کا نام تقلید ہے، اگر چہ یہ نام اس وقت نہیں تھا، نہ اس وقت چار امام تھے، نہ چار حدیث لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس وقت یہ عمل بھی موجود نہ ہو، نام کے ساتھ موسوم ہونا، ترتیب کے ساتھ مرتب ہونا، اور تدوین کے لحاظ سے مدون ہونا، یہ سب بعد میں ہوا، بعد میں ہی حنفی بنے ، شافعی بنے ، اور بعد میں ہی وہابی بھی پیدا ہوئے ، نام اور اپنے مدون اصولوں کے ساتھ ان کے یہ الگ الگ گروہ یقیناً بعد میں بنے ، لیکن تمام کی اصل وہی ہے، سر چشمہ وہی ہے، البتہ جو اس سلسلے میں تشدد کرے، دوسروں کی تنقیص کرے، ان کی تحقیر کرے، دوسرے کے مسلک کو سیدھا سیدھا بے دینی کہے، حدیث کے خلاف سنت سے دور قرار دے، جیسا کہ آج کل کے اکثر مجدی علماء و عوام کر رہے ہیں، تو وہ یقینا راہ صواب سے دور ہے، چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، اور کیسا ہی خوبصورت نام کیوں نہ اختیار کرلے۔
حالانکہ تقلید سے مبرا کوئی نہیں ، ہاں ائمہ گرام کی تقلید سے ضرور دامن جھاڑ سکتے ہیں لیکن تقلید کا مسئلہ عقائد کے اندر شامل نہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ جوشخص تقلید کو ناجائز کہتا ہے اسکے ایمان میں کوئی کمی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ جوائمہ گرام میں سے کسی کی تقلید کرتا ہے وہ مومن نہیں رہتا، یا وہ بے دین ہو جاتا ہے، یا اسے رسول سیلی یہ اہم یا احادیث کا مخالف کہا جانا چاہئے ، یہ تمام باتیں لغو اور امت میں خلفشار وفتنہ کا سبب ہیں، مسالک کے درمیان اختلاف ہو جانا بالکل فطری امر بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور یہ اختلاف امت کیلئے رحمت ہے لیکن ایسا اسی وقت تک ہے جبکہ یہ اختلاف بغض و عناد، فتنہ وفساد تک نہ پہنچے، جب تک علمائے کرام ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے رہیں، اور اختلاف کو ایماندارانہ طور پر، خالص دینی فکر کے تحت قائم رکھیں ، اس میں نہ اپنی ہٹ دھرمی کو جگہ دیں، نہ کسی سے خدا نا واسطے عناد کو عمل میں لائیں ، علمائے امت کے لئے کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، ان میں ہی اپنی صلاحیت و وسائل کو صرف کریں ، نہ کہ امت کے درمیان اختلاف کی آگ دہکانے میں۔ یہ مختصر کتابچه ای جذبہ کے تحت رقم کر گیا ہے کہ اسلاف کی طرح ہم ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے اختلاف کا بھی احترام کریں، اختلاف کو قبول کریں، اسی کا نام باہمی اتحاد ہے، عدم اختلاف کا نام اتحاد نہیں ، بلکہ وجود اختلاف کے باوجود باہم دست وگریبان نہ ہونے کا نام اتحاد ہے، اللہ تعالیٰ اس مختصر کاوش کو قبول فرمائے ، اور امت مسلمہ کے علمائے کرام کو باہم شیر وشکرفرمادے۔آمین
والصلاة والسلام على سيدنا محمد وآله وصحبه أ
أجمعين
عمران علی مظاہری
۲۵/شعبان ۱۴۴۲ ، ۸ را پریل ۲۰۲۱ م
Taqleed ke Shikar
By Maulana Muhammad Imran Ali Mazahiri