حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ

حضرت بلال ابن رباح

حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ

حرف اول 

حضرت بلال ابن رباح رسول اللہ کے ابتدائی معروف ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی حقیر معاشرتی حیثیت کے باوجود بے انتہا عزت و شہرت کمائی۔

حضرت بلال کی طاقت کا مرکز انکا اپنے ایمان پر پختہ یقین تھا جس نے انہیں اپنے ظالم آقا کے مظالم ہنسی خوشی سہنے کا عادی بنا دیا۔ آخر کار وہ آزاد ہو گئے اور انکا آقا ذلت ورسوائی کی موت مراب حضرت بلال اذن رباح کی داستان حیات ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں تجارتی شہر مکہ میں ایک خاص ڈگر پر چلنے والے معاشی اور معاشرتی نظام کے تحت اسلام کے ظہور پذیر ہونے اور پھر لوگوں میں اسکے متعارف کئے جانے سے وابستہ ہے۔ ان دنوں مکہ شمالی عرب کو جنوب میں واقع شام کے ساتھ ملانے والی تجارتی شاہراہ کے عین درمیان میں واقع ایک نہایت خوشحال شہر تھا۔ اس تجارتی شاہراہ نے مکہ کو قدیم شہر مآرب سے ملا رکھا تھا جو صابیوں کا دارالخلافہ تھا۔ اس زمانے میں صابی شمالی سمندر، یروشلم اور شام کے دوسرے کئی اہم شہروں پر قابض تھے ۔ تجارتی قافلے اس راہ گزر کو مصالحہ جات، خوشبویات ، پارچہ جات، تلواروں، ریشم، غلاموں، چاندی اور سونے کی تجارت کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ مکہ مشرقی افریقہ سے بحیرہ احمر کی طرف لے جائے جانے والے مال کے لئے ایک سرِ راہ تجارتی منڈی کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اہل مکہ اپنے شہر کی اس تجارتی حیثیت کا پورا فائدہ اٹھاتے ، مکہ سے گزرنے والے غیر ملکی تاجروں کی خوب آؤ بھگت کرتے اور اس طرح اپنے شہر ہی میں بیٹھے بٹھائے بین الاقوامی تجارت میں شریک ہو جاتے۔ اسکے علاوہ وہ خود اپنے تجارتی قافلے دنیا کی ہر سمت بالخصوص شمال میں یمن اور جنوب میں شام کی طرف روانہ کرتے جس سے وہ بے انتہا دولت اور شہرت کماتے۔

پرانے زمانے سے مکہ کی ایک دینی اہمیت بھی تھی جس سے اہل مکہ کوئی روحانی اور معاشی فوائد حاصل تھے۔ یہ مکہ ہی تھا جہاں اللہ کے دو پیغمبر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اللہ کی عبادت کے لئے اسکا گھر کعبہ بنایا۔ حج بیت اللہ کے فریضہ کی بنیاد بھی انہی کے زمانے میں پڑی۔

گو کعبہ حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی اور اسکے درمیان اور انکے بعد آنے والے پیغمبروں کے حقیقی اللہ کی عبادت گاہ تھا تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ بعد میں آنے والی عرب نسلوں نے دین ابراہیمی کو بگاڑ کر مکہ میں بت پرستی کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بہت پرستی بہت جلد دین واحد کی شکل اختیار کر گئی اور اس طرح کعبہ بت پرستی کا مرکز بن گیا۔ پھر بھی حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کا رواج برقرار رہا۔ لہذا ہر سال ہزاروں زائرین کمہ آتے رہے اور اپنے ساتھ تجارتی مال بھی لاتے رہے۔ نکہ شہر کے مختلف حصوں میں اس تقریب پر جا بجا منڈیاں اور میلے لگائے جاتے جن میں عرب کے گوشے گوشے سے تاجر ، شاعر اور مقرر آکر شرکت کرتے اور اس طرح یہ میلے معاشرتی اور ادبی سرگرمیوں کے لئے مل بیٹھنے کے بہترین مواقع فراہم کرتے۔

ملک کی خوشحالی کی بدولت وہاں ایک آمرانہ طبقہ نے جنم لے لیا جو اپنے وسائل اور دوسرے ملکوں سے درآمد شدہ یا پھر مکہ کے بازاروں سے خرید کر وہ غلاموں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کرتا تھا۔ یہ غلام اپنے آقاؤں کے نہایت قیمتی اثاثے تھے۔ ان کو چھوٹے چھوٹے کاموں سے لے کر بھاری بوجھ اٹھانے تک اور پھر اپنے آقاؤں کے مفاد کی حفاظت کرنے کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ کچھ غلام ابتدا میں آزاد مرد، عورتیں یا بچے تھے جو یا تو اخوا ہونے اور یا پھر طلوع اسلام سے پہلے عربی قبیلوں کی لڑائیوں میں قید ہو جانے کے بعد غلام بنا دئیے گئے ، جبکہ کچھ دوسرے پیدائشی غلام تھے۔ غلام چاہے پیدائشی ہوتا یا بازار میں بیچا گیا اغواشدہ آزاد مشخص ، اسکے لئے ایک مرتبہ غلام بن جانے پر آزادی حاصل کرنا ناممکن ہوتا کیونکہ اسکا آقا اپنی حیثیت اور طبیعت کی وجہ سے اسکو آزاد کرنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ غلاموں کے ساتھ نہایت غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا۔ انکو بھوکا رکھنے کے علاوہ زندگی کی کئی دوسری ضرورتوں سے بھی محروم رکھا جاتا تھا اور ان کو جانور تصور کیا جاتا تھا۔

غلاموں کی حقیر حیثیت کی وجہ سے انہیں اکثر غیر اخلاقی یا گستاخی پر مبنی ناکردہ جرائم میں ملوث کر دیا جاتا اور پھر ان کو چھٹری یا کوڑوں سے بے دریغ پیٹا جاتا ۔ آقا اپنے غلام کے ساتھ جو سلوک چاہتا بے خوف و خطر کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اسے قتل بھی کر سکتا تھا۔ لہذا ایسا بہت ہی کم ہوا کہ اس زمانے میں رائج نظام کے تحت کسی غلام نے کوئی ممتاز حیثیت حاصل کی ہو ۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ وہ غلام یا تو غیر معمولی جسامت یا پھر کسی اور اچھوتی خوبی کا مالک ہو۔

تقبیلہ بندی المیان مکہ کا معاشرتی تقاضہ تھا ۔ لہذا وہ مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وہ سب در حقیقت ایک عظیم الشان خاندان قریش سے وابستہ تھے اور یوں انہیں ذاتی مفادات اور بیرونی خطرات سے تحفظ کی ضرورت نے یکجا کیا ہوا تھا۔ وہ بتوں اور تصویروں کو پوجتے تھے ۔ ہر قبیلہ کا اپنا علیحد ہ خدا تھا جو انکے رواج کے مطابق انکے قبیلے کے افراد کی ہم آہنگی اور مضبوطی کا نشان تھا۔ اسکے علاوہ انکے عالمگیر خدا بھی تھے جن کا احترام اور پرستش نہ صرف اہل قریش بلکہ عرب کے تمام قبائل کرتے تھے ۔ یہ عالمگیر خدا کعبہ کے اندر اور اسکے اردگرد نصب کئے گئے تھے۔ غرور اور تکبر قبائل کے مرد افراد کا خاصہ تھا اور یوں عام رواج کے مطابق صرف لڑکوں بھی کی طرف داری کی جاتی تھی کیونکہ عربوں کا کہنا تھا کہ لڑکے لڑکیوں کی نسبت کمانے اور قبیلے کی آبرو بچانے کا ذریعہ ہیں۔ وہ عورتوں کو ناپسند کرتے تھے اور ان سے حقارت سے پیش آتے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنی نوزائیدہ لڑکیوں کو زمین میں زندہ دفن کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ وہ اپنی دنیاوی کامیابیوں پر فخر محسوس کرتے تھے ، ادنی طبقے کے افراد کو دباتے تھے اور ان کو اپنے مقاصد کے

لئے استعمال کرتے تھے۔ شراب، جوا اور زنا انکے پسندیدہ ترین مشاغل تھے۔ جب محمد ابن عبد اللہ، اللہ کے آخری نبی نے ۶۱۰ عیسوی میں اپنی نبوت کا اعلان کیا اور مشرکین مکہ کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے ، بتوں کی پرستش چھوڑ نے اپنی غیر اخلاقی و غیر انسانی عادات سے باز آنے اور انسانی قدروں سے گرے ہوئے عقیدوں کو ترک کرنے کی دعوت دی تو کافروں نے متحدہ طور پر اس دعوت عظیم کو رد کر دیا۔ رسول اللہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا اور آپ کے قتل کے منصوبے بھی بنانے لگے۔ حضرت بلال کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نئے دین کی سچائی کو فوراً پہچان لیا اور اس طرح انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق کے بعد دوسرا بالغ مسلمان مرد بنے کی سعادت حاصل کی۔ جب حضرت بلال کے آتا اُمیہ نے یہ خبر سنی کہ حضرت بلال بتوں کی پرستش چھوڑ کر اللہ واحد پر ایمان لے آئے ہیں تو اسکا غصے سے ایسا بُرا حال ہوا … جو بیان سے باہر ہے۔

Hazrat Bilal Ibn Rabah [RA]

By Dr. Abdur Rauf

Read Online

Download (1MB)

Link 1        Link 2

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.