حوادث الفتاوی
پیش لفظ
زمانے کے ساتھ اس دنیا کو اللہ پاک نے تغیر پذیر بنایا ہے، جس کی وجہ سے امکنه، از منہ، اشخاص، افراد، ادوار، احوال میں بھی تغیر ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں نئے مسائل کا پیدا ہونا ایک ناگزیر امر ہے۔
لیکن قربان جائیے ان نفوس قدسیہ اور علماءر بانہین پر جنہوں نے ہر زمانے میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر گہری نظر رکھنے کے لئے اپنے کو وقف کر دیا، وہ لوگوں سے مل کر بازاروں میں چل پھر کر اہل صنعت واہل حرفت سے ملاقات کر کے نے معاملات اور پیدا ہونے والی نئی صورت حال کی واقفیت حاصل کرتے اور اپنی راتوں کی نیند قربان کر کے امت کے لئے پیدا شدہ جدید مسائل اور حالات کا حل قرآن اور حدیث سے تلاش کر کے ان کے سامنے پیش کرتے ۔
چنانچہ حضرت امام محمد علیہ الرحمہ کا حال یہ تھا کہ پوری رات جگنے کی وجہ سے آپ کا جسم بے پناہ لاغر و نحیف ہو گیا تھا خدام نے جب رات میں کچھ دیر راحت و آرام کے لئے سونے کی درخواست کی تو حضرت امام محمد علیہ الرحمہ نے یہ تاریخ ساز جملہ فرما کر خدام کو خاموش اور حیران کر دیا کہ پوری امت تو یہ سوچ کر سو رہی ہے کہ محمد تو جگ رہا ہے، اگر محمد بھی سو گیا تو امت کا کیا حال ہوگا“۔
حضرت امام محمد علیہ الرحمہ نے گھر کی مرغیوں کو بھی اس وجہ سے فروخت فرما دیا تھا کہ ان کی آواز سے ان کے مطالعہ میں خلل واقع نہ ہو۔
امت کے لئے اس بے نفسی اور بے لوث خدمت کا صلہ اللہ کی طرف سے ان کو یہ ملا کہ ان کی تصنیفات میں جو تصانیف اصل کے ساتھ موسوم ہیں ان میں سے ایک کتاب کا مطالعہ جب انگریز نے کیا تو وہ معاند بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ جب محمد صغیر کی کتاب کی تاثیر کا یہ عالم ہے تو محمد کبیر کی کتاب (قرآن شریف ) کی تاثیر کا کیا عالم ہوگا۔
اس طرح کی فکر رکھنے والے اور امت کے لئے نئے مسائل کے حل کی جستجو رکھنے والے اور اس کے لئے اپنی زندگی کو وقف کرنے والے ہر زمانے میں لاکھوں کی تعداد میں رہے ہیں لیکن دنیا والوں نے نہ ایسوں کو پہچانا نہ ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کو وہ مقام دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک،حضرت مام احمد بن حنبل، حضرت امام بخاری ، حضرت شاہ ولی اللہ جیسے ہزاروں علماء ربانیین اور فقہاء کے ساتھ اہل دنیا کا سلوک و برتاؤ تاریخ کے اوراق میں آج بھی محفوظ ہیں۔
اس خادم نے بھی اپنے اسلاف واکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو درس و تدریس، تصنیف و تالیف کے ساتھ فقہ وفتاوی میں صرف کیا اور متداول فقہی کتابوں سے شروع ہی سے اپنے کو وابستہ رکھا۔
استاذ محترم حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہ کر ہزاروں فتاوی کی املاء کا شرف حاصل ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے مسائل کی نوک پلک اور اس کی شرح وبسط و اجمال و تفصیل سے اچھی خاصی ممارست ہوگئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی زندگی میں ہزاروں فتاوے لکھنے کی نوبت آئی جن میں سے بہت سے فتاوے ماہرا کا برین افتاء کی نظر سے گزرے لیکن الحمد للہ بھی کوئی جملہ یا تحریر قابل حذف واضافہ یا لائق ترمیم نہیں نکلی ۔
قدیم مسائل کے ساتھ حوادث الفتاوی یعنی جدید مسائل سے بھی سابقہ پڑتا رہا اور الحمد للہ ان نئے مسائل کے جوابات بھی تشفی بخش انداز میں لکھنے کی سعادت اس خادم کو حاصل ہوتی رہی اور ان مسائل سے متعلق تحریرات بھی اکابرین کی نظر سے گزرتی رہیں اور الحمد للہ ہر تحریر نے اپنے بڑوں کا استصواب حاصل کیا اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کا بیشتر حصہ جن فتاوی نویسی میں گزرا ان کا مجموعہ احباب و تلامذہ، رفقاء ومستر شدین کے پیہم اصرار کے بعد حبیب الفتاوی کے نام سے آٹھ جلدوں میں مکتبہ طیبہ دیو بند سے شائع ہو کر عوام وخواص، اصاغر وا کا بر سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن بہت سے نئے مسائل جو حالات زمانہ کو مدنظر رکھ کر لکھے گئے تھے وہ مختلف اوراق میں منتشر ہونے کی وجہ سے عوام وخواص کی دسترس سے باہر تھے جس کی وجہ سے رفقاء واحباب، تلامذہ و خواص کا اصرار ہوا کہ ان نئے مسائل کو منتشر اوراق سے نکال کر یکجا کر دیا جائے تو عوام و خواص کے لئے اس سے استفادہ کی راہ آسان جدید مسائل اور ان کا حل ہو جائے گی۔
چنانچہ ان مخلص احباب و تلاندہ کی خواہش کی تکمیل کے لئے اس خادم نے وقت فارغ کر کے ان منتشر مسائل کو کتابی شکل دینے کی کوشش کی ، چنانچہ بفضلہ تعالیٰ یہ کوشش پایہ تکمیل کو پہونچی اور حوادث الفتاوی ( آپ کے مسائل اور ان کا حل ) کے نام سے
دو جلدوں میں یہ کتاب تیار ہوگئی جو آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔
امید ہے کہ اس سے استفادہ کرنے والے حضرات اس خادم کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گے اور امید ہے کہ دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی عوام وخواص کے لئے جاذب نظر اور مشعل راہ ثابت ہوگی ۔
دعاء ہے کہ اللہ پاک اس خادم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اپنی رضاء کے ساتھ نجات اخروی کا ذریعہ بنائے۔ عمر بہت تھوڑی باقی ہے اور علمی کام ابھی بہت زیادہ پڑے ہوئے ہیں اللہ پاک ہر طرح کے موانع کو دور فرما کر ان باقی علمی کاموں کی تکمیل کی راہ ہموار فرمائے اور قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ فقط
مفتی حبیب اللہ قاسمی
خادم الحديث والافتاء بانی و مہتمم
جامعہ اسلامیہ دارالعلوم مہذب پور، سنجر پور، اعظم گڑھ، یوپی
۱۴۴۴/۴/۱۷ھ مطابق ۲۰۲۲/۱۱/۱۳ء
Hawadith ul Fatawa By Mufti Habibullah Qasmi
One thought on “حوادث الفتاوی”