خطبات امیر شریعت

خطبات امیر شریعت

خطبات امیر شریعت

مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری

عرض مرتب

امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اپنے زمانہ کے نہ صرف بڑے خطیب بلکہ خطیب گر تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی مبارک میں کئی چھوٹوں کو بڑا بنایا اور انہوں نے اپنی خطابت کے ذریعے دین اسلام کی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔

اللہ پاک نے فن خطابت کے اسرار ورموز سے وافر حصہ عطاء فرمایا اور ان کی خطابت کے سامنے بڑے بڑے ادیبوں اور خطیبوں کے چراغ گل ہو جاتے ۔ شاہ جی کے خطاب کے بعد مولانامحمد علی جو ہر جیسا عظیم خطیب بھی کامیاب نہ ہوسکا۔

چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک مرتبہ فرمایا: ” بخاری تم اپنی تقریر میں جب لوگوں کو قورمہ اور پلاؤ مہیا کرتے ہو تو انہیں یہ بھی کہہ دیا کرو کہ محد علی کی سوکھی روٹی بھی قبول کر لیا کریں۔ اس پر شاہ جی نے فرمایا: ” حضور ایک جرنیل ایک سپاہی کے بارہ میں یہ کہہ رہا ہے۔ سپاہی کی شہرت تو دراصل جرنیل کی عظمت کا آئینہ ہوتی ہے۔ یہ الفاظ سن کر مولانا جو ہر خاموش ہو گئے۔ مولانا جوہر نے اپنے اخبار میں لکھا تھا یہ شخص مقرر نہیں بلکہ ساحر ہے۔

اور مولانا جوہر ہی نے فرمایا۔ بخاری عوام کو ہنساتے اور ہنستے ہوئے شگفتہ چہروں کو رُلانے پر قادر ہے۔ جو خون کے آنسو رونے والوں کے چہروں پر عصبنا کی کی لکیریں کھینچ دیتا ہے۔ ان سے نہ تو پہلے تقریر کی جاسکتی ہے۔ کہ ان کی تقریر سے پہلے مقرروں کی تقریروں کا رنگ اُڑ جاتا ہے۔ اور نہ بعد میں ان کے بعد کسی کا رنگ جم ہی نہیں سکتا۔

شاہ جی نے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد جیسے سحر البیان اور قادر الکلام خطیب و ادیب کو مشکل میں ڈال دیا۔ چنانچہ مولانا آزاد بھی ایسے جلسے میں تقریر نہیں کرتے تھے۔ جس میں شاہ جی کی آمد ہو۔

ایک خطیب میں جتنی صلاحتیں ہونی چاہئیں قدرت نے انہیں فیاضی سے حصہ دیا۔ اور انہیں قد وقامت شکل و صورت، قوت و طاقت، شجاعت و بہادری غیرت و حمیت، احساس، رقت و جذبات کا تلاطم بلندی آواز ، خوش گوئی اور خوش الحانی جیسی عظیم صفات سے نوازاتھا۔ آپ کی تقاریر میں شیر کی گرج شاعر کے احساسات صوفی و عارف کے اخلاص ، دریا کی روانی ، پھولوں کی نزاکت اور کیف و وجد کی کیفیات شامل ہوتیں۔ حسن صورت کے ساتھ ساتھ خداوند قدوس نے انہیں حسن صوت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ وہ جب اپنی مخصوص آواز میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو اس طرح محسوس ہوتا کہ قرآن پاک ابھی نازل ہورہا ہے۔ بقول شورش کشمیری جب وہ قرآن پڑھتے تو فضا میں اُڑتے ہوئے پرندے ٹھہر کر ان کا قرآن سنتے اور دریاؤں اور سمندر کی موجیں گوش بر آواز ہوتیں۔ ان کے نغمہ قرآنی سے قلوب بھنچ کر گویا با ہر آجاتے۔ اثناء وعظ میں موقع بموقع اشعار کا ترنم باغ و بہار ہوتا۔ طبیعت بھی اتنی حسین تھی ۔ جتنی کہ صورت و سیرت ، شاہ جی ان بے علم خطباء میں سے نہ تھے۔ جن کی خطابت میں علم نہ ہو محض لفاظی ہی ان کی خطابت کا مرکز ومحور ہو۔ انہوں نے اپنے زمانہ کے مایہ ناز علماء کرام اور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ یہ کئے۔ قرآن کریم کے مضامین پر خاصا عبور حاصل تھا۔ جس نے من علم بھر کو دو من کر کے دکھلا دیا تھا۔ شہادت حسین پر بھی تقریر نہیں کی۔ کئی مرتبہ دوستوں نے اصرار کیا تو ٹال دیا ۔ شورش کشمیری فرماتے ہیں ایک دن میں نے پوچھا تو فرمایا: کہ کس طرح بیان کروں کہ نانا کا کلمہ پڑھنے والوں کے نواسوں پر کیا بیتی مجھ میں حوصلہ نہیں کہ اس سانحہ کو بیان کرسکوں۔ اپنے اندر طاقت نہیں پاتا۔ البتہ اپنے حال پر غور کر کے دیکھ لیتا ہوں۔ کہ مسلمانوں کی پرانی سنت (عادت) کیا ہے۔ بایں ہمہ خارجیت اور یزیدیت سے کوسوں دور تھے۔ 

کسی نے سوال کیا شاہ جی مردے سنتے ہیں۔ فرمایا سنتے ہوں گے جن کی سنتے ہوں گے۔ ہماری تو زندے بھی نہیں سنتے ۔ اس نے دوسری مرتبہ پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا ” جب ہم

مریں گے تو پتہ چل جائے گا۔ اگر ہم سن لیں گے تو اور بھی سنتے ہوں گے۔“ اس کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے پھر سوال دہرایا تو فرمایا کہ مرد سے تین قسم پر ہیں

(1) جو ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حال میں سنتے ہیں۔

(۲) بعض وہ ہیں جو کسی وقت کسی حالت میں کسی جگہ سے نہیں سنتے۔

(۳) تیسرے وہ ہیں جو کبھی کبھی سن لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی نہیں سنتے۔ اس نے وضاحت طلب کی تو فرمایا کہ بریلویوں کے مردے ہر وقت، ہر حالت میں ہر جگہ سے سنتے ہیں۔ غیر مقلدوں کے کسی وقت کسی حالت میں کسی جگہ سے نہیں سنتے ۔ دیو بندیوں کے کبھی کبھی سن لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی نہیں سنتے ۔ ( عجیب قسم کی تعریض ہے) قادیان تبلیغ کا نفرنس میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: وہ نبی کا بیٹا کہلاتا ہے اور میں نبی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نواسہ ہوں۔ وہ (مرزا محمود ) آئے اور مجھ سے . اُردو، فارسی، پنجابی ہر معاملہ کے متعلق بحث کرے یہ جھگڑا آج ہی طے پایا جاتا ہے۔ وہ پردے سے باہر نکلے، نقاب اٹھائے، کشتی لڑے اور آل علی کے جو ہر دیکھے۔ ہر رنگ میں آئے وہ موٹر پر بیٹھ کر آتے میں ننگے پاؤں وہ ہر یر و دیباج پہن کر آتے ۔ میں موٹا جھوٹا پہن کر آؤں ، وہ مزعفر کباب اور یا قوتیاں اور اپنے ابا کی سنت کے مطابق پلومر کی ٹا تک وائن ( شراب پی کر آئے

میں اپنے نانا کی سنت کے مطابق جو کی روٹی کھا کر آؤں ۔ ”ہمیں میدان ہمیں کو۔ غرض اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ جن سے شاہ جی کی خطیبانہ عظمت کا سراغ ملتا ہے۔ جس کے نشہ میں لوگوں نے جانیں نچھاور کی تھیں۔ وہ ہر موضوع پر خطاب فرماتے۔ بلکہ مجمع کے چہرہ سے موضوع کا انتخاب کرتے بدقسمتی سے وہ دور کیسٹ ہی ڈی اور الیکڑانک میڈیا کا نہیں تھا۔ ورنہ ان کی خطابت کے جواہر پارے آج بھی دیکھنے اور سنے کو ملتے۔

شاہ جی گھنٹوں تقریر فرماتے : کاش وہ تقاریر محفوظ ہو جاتیں تو بہت بڑا علمی ذخیرہ ہوتیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ، شاہ جی ایک قومی شخصیت تھے ۔ قومی شخصیات کسی فرد کی ملکیت نہیں ہوتیں۔

چنانچہ بندہ نے چند سال قبل شاہ جی کے حالات زندگی اور خطبات و تقاریر پر مشتمل کتاب ترتیب دی۔ جس کا نام ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری سوانح و افکار رکھا گیا ۔ کتاب کی ضخامت بڑھ گئی تو خیال پیدا ہوا کہ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ پہلا حصہ تو اسی نام پر اور دوسرے حصہ کا نام ”خطبات امیر شریعت تجویز کیا گیا۔ یہ تقاریر وہی ہیں۔ جو سوانح و افکار میں شامل تھیں۔ البتہ اس کی پروف ریڈنگ نئے سرے سے کی گئی ۔ کوشش کی گئی کہ تقاریر کا ماخذ بھی دے دیا جائے۔ اگر سی تقریر کا ماخذ نہیں آسکا۔ تو وہ ابن امیر شریعت سید عطاء الحسن شاہ بخاری کی مرتب کردہ بخاری کے زمرے“ سے لی گئی۔

اگر چہ یہ تقاریر یا تقاریر کے اقتباسات وقتا فوقتا کہیں کہیں شائع ہوئے۔ لیکن اب ان کا ملنا دشوار تھا۔ نئی محنت نئی ترتیب، کمپیوٹ پر ممکنہ حد تک بہتر انداز میں اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کرنے پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ مجھے شدت کے ساتھ احساس ہے۔ کہ نہ عالم ہوں اور نہ خطیب، رائٹر نہ ادیب ،مصنف نہ مؤلف۔ لیکن شاہ جی جیسے علماء ربانیین کا کفش بردار اور خوشہ چین ہوں ۔ وقتاً فوقتاً ایسے حضرات کے کارہائے نمایاں ترتیب و تبویب کی لڑی میں پرو کر خدام ختم نبوت کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ پاک پروردگار عالم سے دُعا ہے کہ تادم زیست اسی طائفہ منصورہ کی کفش برداری کی توفیق نصیب فرماتے رہیں۔ اور ان نا تمام مساعی کو قبول فرما کر خدام ختم نبوت کی صف میں شامل فرمائے رکھیں۔ ( آمین ثم آمین )

محمد اسماعیل شجاع آبادی

خادم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت

حال وارد چناب نگر ضلع جھنگ

۱۴ رشعبان المعظم ۱۴۲۸ء

 

Khutbat e Ameer e Shariat

By Maulana Muhammad Ismail Shuja Abadi

Read Online

Download

Link 1(28MB)    Link 1(5MB)

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Discover more from E-Islamic Books

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading