خلاصہ مضامین قرآنی مولانا ذاکر آدم پارکھیتی

خلاصہ مضامین قرآنی

خلاصہ مضامین قرآنی

مجموعہ خلاصہ مضامین قرآنی مرتب: مولانا ذاکر آدم پارکھیتی

مقدمه

باسمه تعالی الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الانبياء والمرسلين ، وعلى آله وصحبه اجمعین۔ اما بعد!

قرآن کریم کا چیلنج اور انسانی عجز (لبید بن ربیعہ وابن المقفع ):

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دعوی کیا کہ قرآن کریم ایک آسمانی کتاب ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اتری ہے، تو بہت سے لوگوں نے اس کو نہیں مانا، انہوں نے کہا کہ یہ ایک انسانی تصنیف ہے نہ کہ خدائی تصنیف، اس کے جواب میں قرآن کریم میں کہا گیا کہ اگر تم اپنے قول میں بچے ہو تو قرآن کریم کے مانند ایک کلام بنا کر لاؤ۔ ( طور : ۳۴) اسی کے ساتھ قرآن کریم نے مطلق لفظوں میں یہ اعلان کر دیا کہ اگر تمام انسان اور جن اس بات پر اکھٹا ہو جائیں کہ وہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ہر گز نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہو جائیں۔ قل لئن اجتمعت الانس والجن على ان يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا. (الاسراء: ۸۸) بلکہ اس کے جیسی ایک سورہ ہی بنا کر دکھا دیں۔

و ان كنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا فأتوا بسورة من مثله وادعوا شهدائكم من دون الله ان كنتم صادقین۔ (بقرہ:۲۳)

اپنے بندے پر اپنا جو کلام ہم نے اتارا ہے، اگر اس کے کلام الہی ہونے کے ) بارے میں تمہیں شبہ ہے تو اس

کے جیسی ایک سورہ لکھ کر لے آؤ ، اور خدا تعالیٰ کے سوا اپنے تمام شہداء کو بھی بلا لو، اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو۔ یہ حیرت انگیز دعوی ہے، جو ساری انسانی تاریخ میں کسی بھی مصنف نے نہیں کیا اور نہ بقید ہوش و حواس کوئی مصنف ایسا دعوی کرنے کی جرات کرسکتا ہے؛ کیوں کہ کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے جس کے ہم پا یہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکتے ہوں، ہر انسانی تصنیف کے جواب میں اسی درجہ کی دوسری انسانی تصنیف تیار کی جاسکتی ہے، قرآن کریم کا یہ کہنا کہ وہ ایک ایسا کلام ہے کہ اس جیسا کلام انسانی ذہن تخلیق نہیں کر سکتا، اور ڈیڑھ ہزار برس تک کسی انسان کا اس پر قادر نہ ہونا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ یہ ایک غیر انسانی کلام ہے، یہ خدائی منبع ( Divine Origin) سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اور جو چیز خدائی منبع سے نکلی ہو اس کا جواب کون دے سکتا ہے۔ تاریخ میں چند مثالیں ملتی ہیں جب کہ اس چیلنج کو قبول کیا گیا، سب سے پہلا واقعہ لبید بن ربیعہ کا ہے جو عربوں میں اپنے قوت کلام اور تیزی طبع کے لئے مشہور تھا، اس نے جواب میں ایک نظم لکھی جو کعبہ کے پھاٹک پر آویزاں کی گئی، اور یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو صرف کسی اعلی ترین شخص ہی کو مالتا تھا، اس واقعہ کے جلد ہی بعد کسی مسلمان نے قرآن کی ایک سورہ لکھ کر اس کے قریب آویزاں کر دی ، لبید ( جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ) جب اگلے روز کعبہ کے دروازہ پر آئے اور سورہ کو پڑھا تو ابتدائی فقروں کے بعد ہی وہ غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے اور اعلان کیا کہ بلاشبہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے، اور اس پر میں ایمان لاتا ہوں، (448.Mohammad the Holy Prophet, by H.G. Sarwar p) حتی کہ عرب کا مشہور شاعر قرآن کریم کے ادب سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی شاعری چھوٹ گئی ، بعد میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے اشعار کی فرمائش کی تو انہوں نے جواب دیا:

” جب خدا تعالیٰ نے مجھے بقرہ اور آل عمران جیسا کلام دیا ہے تواب شعر کہنا میرے لئے زیبا نہیں۔“ دوسرا واقعہ اس سے زیادہ عجیب جو ابن المقفع کا ہے، وہ یہ ہے کہ منکرین مذہب کی ایک جماعت نے یہ دیکھ کر کہ قرآن کریم لوگوں کو بڑی شدت سے متاثر کر رہا ہے ، یہ طے کیا کہ اس کے جواب میں ایک کتاب تیار کی جائے ،انہوں نے اس مقصد کے لئے ابن المقفع (م: ۷۲۷ء) سے رجوع کیا ، جو اس زمانہ کا ایک زبر دست عالم ، بے مثال ادیب اور غیر معمولی ذہین وطباع آدمی تھا، ابن مقفع کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھا کہ وہ راضی ہو گیا، اس نے کہا کہ میں ایک سال میں یہ کام کر دوں گا، البتہ اس نے یہ شرط لگائی کہ اس پوری مدت میں اس کی تمام ضروریات کا مکمل انتظام ہونا چاہئے ؛ تا کہ وہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو اپنے کام میں مرکوز رکھے۔ نصف مدت گذرگئی تو اس کے ساتھیوں نے یہ جاننا چاہا کہ اب تک کیا کام ہوا ہے، وہ جب اس کے پاس گئے تو انہوں نے اس کو اس حال میں پایا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے، قلم اس کے ہاتھ میں ہے ، گہرے مطالعہ میں مستغرق ہے، اس مشہور ایرانی ادیب کے سامنے ایک سادہ کاغذ پڑا ہوا ہے ، اس کی نشست کے پاس لکھ کر پھاڑے ہوئے کاغذات کا ایک انبار ہے اور اسی طرح سارے کمرہ میں کاغذات کا ڈھیر لگا ہوا ہے ، اس انتہائی قابل اور فصیح اللسان شخص نے اپنی بہترین قوت صرف کر کے قرآن مجید کا جواب لکھنے کی کوشش کی ، مگر وہ بری طرح ناکام رہا، اس نے پریشانی کے عالم میں اعتراف کیا کہ صرف ایک فقرہ لکھنے کی جدو جہد میں اس کے چھ مہینے گزر گئے مگر وہ نہ لکھ سکا، چنانچہ نا امید وشرمندہ ہوکر وہ اس خدمت سے دست بردار ہو گیا۔ اس طرح قران کریم کا چیلنج بدستور آج تک قائم ہے اور صدیاں گزرگئیں ، مگر کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

Khulasa e Mazamin e Qurani

By Maulana Zakir Adam

Read Online

Khulasa e Mazamin e Qurani By Maulana Zakir Adam خلاصہ مضامین قرآنی

Download (22MB)

Link 1      Link 2

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.