خواتین کی اعلی دینی و عصری تعلیم
اسلام علم و معرفت کا مذہب ہے ، علم و فن کے فروغ اور فکر و شعور کے ارتقاء میں اسلام اور مسلمانوں کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، اسلام سے پہلے دنیا علم و عرفان کی حقیقی
عظمت سے نا آشنا تھی۔
اسلام سے قبل علم کا معیار
عرب تو خیر نوشت و خواند سے بھی محروم تھے ، مگر اس دور کی نسبتا زیادہ مہذب اقوام ” (یہودی اور عیسائی وغیرہ) میں بھی تعلیم و تعلم کا نام و نشان نہ تھا، عیسائی علماء ( پادریوں ) میں جو تعلیم رائج تھی وہ صرف بائبل کے حروف سیکھ لینے تک محدود تھی، ترجمہ و تشریح کا کوئی تصور موجود نہ تھا، بعض یہودی داستان نویسوں نے جو افسانے اور کہانیاں لکھی تھیں ان کو حقیقی علم کا درجہ دیدیا گیا تھا، پھر رفتہ رفتہ انہی بے سر و پا داستان کا درجہ وحی الہی کے برابر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ ہندستان میں شریمد بھاگوت اور ۱۸ / پرانوں کی حکومت تھی، یہاں مہا بھارت اور ؟ رامائن کے فرضی قصے علم کی معراج تصور کئے جاتے تھے، دیوتاؤں اور فرشتوں کی برتری کے ذکر سے ہنود اور یہود کی کتابیں بھری پڑی ہے ، انسان کو ہمیشہ ان کے سامنے ایک پرستار اور پجاری کی شکل میں ظاہر کیا گیا ہے۔۔۔ یہی حال چین اور ایران کا بھی تھا، اور یورپ کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا، ” پورے یورپ میں علم کی کوئی کرن تک موجود نہ تھی!
اور اس پر المیہ یہ کہ بعض اقوام میں جو تھوڑی بہت تعلیم تھی وہ بھی انسانیت کے ہر طبقہ کے لئے عام نہ تھی، اس کے چہار طرف ایسی سنگینیاں حائل تھیں ، جن کو عبور کرنا ہر ایک کے لئے آسان نہ تھا، مثلا ہندو مذہب کی رو سے ‘شودروں کے لئے ‘ ویدوں کا شلوک سننا بھی ؟ نا جائز تھا، اور اس کی سزا یہ تھی کہ ان کے کانوں میں گرم پگھلا ہو اس میسہ ڈالا جاتا تھا۔ عیسائی مذہب میں علم و تحقیق کی بالکل اجازت نہ تھی کوئی نیا علمی نظریہ پیش کرنا عیسائی علماء کے یہاں نا قابل معافی جرم تھا۔ چنانچہ ان کی کو تاہ نظری کی وجہ سے بہت سے مفکر بے دین اور بہت سے حکماء جادوگر قرار دیئے گئے
عورت اسلام سے قبل
بے چاری غریب عورت کا تو پوچھنا ہی کیا، اس کا وجود ہی باعث شرم تھا بہت سی قوموں میں اسی ذلت سے بچنے کیلئے لڑکیوں کے قتل کر دینے کا رواج ہو گیا تھا، جہلاء تو در کنار علماء او ر پیشوایان مذہب تک میں مدتوں یہ سوال زیر بحث رہا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں ؟ ہندو ” مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا دروازہ عورت کیلئے بند تھا، بودھ مت میں عورت سے تعلق رکھنے ؟ والے کیلئے نروان کی صورت نہ تھی، مسیحیت و یہودیت کی نگاہ میں عورت ہی تمام برائیوں کی جڑ مانی جاتی تھی، یونان میں شریف گھرانوں کی عورتوں کیلئے نہ علم تھانہ تہذیب و ثقافت تھی اور نہ کوئی تمدنی حق ، یہ چیزیں پیشہ ور طوائف کا شیوہ سمجھی جاتی تھی ، اور ایران، چین، مصر اور تہذیب” انسانی کے دوسرے مرکزوں کا حال بھی قریب قریب ایسا ہی تھا۔ قرآن مجید نے عورت کے تعلق سے اس جاہلی تصور کو نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا “
واذا بشر احدهم بالانثى ظل وجهه مسودا وهو كظيم سہ ماہی دعوت حق تعلیم نسواں نمبر ص ۳۰/ ج۱ / ش ۳، ۴ / شائع کردہ جامعہ ربانی منور واشریف بہار – بحوالہ پر دہ ص۱۸۸/ مولانا مودودی
Khawateen ki Aala Deeni wa Asri Taleem
By Mufti Akhtar Imam Adil