درس انتباہات مفیدہ
درس انتباہات مفیدہ علم کلام جدید حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے نایاب رسالہ انتباہات مفیدہ کی بہترین شرح
مؤلف: مفتی سید فصیح اللہ شاہ مدرس الجامعة البنورية العالمية ناشر: مکتبۃ السعد
سبب تالیف
اس زمانہ میں مسلمانوں کے عقائد وافکار، عبادات اور عادات میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اسی وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ کے لحاظ سے علم کلام کی تدوین ہونی چاہئے ، اگر ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے مشائخ کا مدونہ علم کلام ہمارے لئے کافی نہیں تو ان کا یہ کہنا غلط ہے اس لئے کہ انہوں نے ایسے جامع اصول اور قواعد مرتب فرمائے ہیں جن سے ہر دور میں کام لیا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے زمانے میں بعض ایسے جزئی شبہات نے جنم لیا ہے جو اسلاف کے زمانے میں نہیں تھے اس لحاظ سے علم کلام پر جدید طریقہ سے کام کی ضرورت ہے۔
اسلاف کے مدونہ علم کلام کو ناقص کہنا اس لئے غلط ہے کہ آجکل کی اکثر ایجادات پہلے تو تحقیقی نہیں ہوتے بلکہ اوہام اور تخمینے ہوتے ہیں ورنہ اکثر پرانے فلاسفہ سے چوری کر کے نئے انداز میں پیش کئے جاتے ہیں بعض تو ایسے مسائل ہیں جن پر بہت طویل زمانہ گزر گیا تو لوگوں کے علم میں نہیں رہیں اور آج کل کے فلاسفہ نے ازسرنوان ابحاث کو چھیڑ دیا، اور بعض مسائل اگر چہ پرانے ہیں مگر نئے عنوان کا جامہ پہنا کر پیش کئے گئے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نئے مسائل ہیں حالانکہ مسائل پرانے ہی ہوتے ہیں۔ ان مسائل پر تو ہمارے مشائخ نے کتب علم کلام میں خوب کلام فرمایا ہے۔ البتہ بعض ایسے مسائل ہیں جو حقیقت میں نئے ہیں ان مسائل پر بحث کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو علم الکلام جدید کا نام دیا جا سکتا ہے۔
معنت فرماتے ہیں کہ میں مسلسل اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کبھی خیال آتا کہ تمام شب بات کا احاطہ کیا جائے مگر یہ کام بہت طویل تھا پھر میں نے اختصار کا سوچتے ہوئے کہا کہ ایک ایک شبہ جو مشہور ہو اس کو جمع کیا جائے اور ہر ہر شبہ کا جواب دیا جائے اس سے وفا کرے ہوں گے ایک تو لوگوں کے سامنے ہر ہر شبہ کی وضاحت سامنے آجائے گی۔ دوسرے ایسے احصول جمع ہو جائیں گے جو آئندہ پیدا ہونے والے شبہات کی تردید کے لئے بھی کافی ہوں گے۔
اس کام کے لئے میں نے بعض دوستوں سے بھی کہا کہ وہ شہبات کو جمع کرنے میں تعاون کریں چنانچہ شبہات کو جمع کرنا شروع کر دیا گیا اور اس طرح اس کام کی ابتداء کر دی گئی۔ پھر ۱۳۲۷ھ میں میں اپنے بھائی کے پاس جامعہ علی گڑھ ملاقات کے لئے گیا وہاں کے نواب صاحب نے مجھے وعظ کرنے کا کہا میں نے ان کی طلب کو دیکھتے ہوئے بیان کیا وہاں میرے دل میں آیا کہ تمام شبہات کے جمع ہونے کا انتظار نہ کیا جائے اس لئے کہ یہ کام تو میرے دوستوں کے سپرد تھا۔ بلکہ جو شبہات میرے مطالعہ میں آچکے ہیں یا میں نے اساتذہ سے سنے ہیں اور جو میں نے اپنے مواعظ میں بیان کے ہیں انکو اکھٹا کر کے ایک رسالہ تیار کیا جائے۔
علی گڑھ میں جو میں نے بیان کیا اس کا خلاصہ یہ ہے آج کل ہمیں علماء کی باتوں سے فائدہ نہیں ہوتا اس لئے کہ ہم چند طرح کی غلطیوں کے شکار ہیں۔
ایک یہ کہ دین کے حوالے سے ہمارے دلوں میں جو شبہات اور وساوس جنم لے رہے ہیں ہم انہیں بیماری نہیں سمجھتے اس وجہ سے روحانی طبیبوں کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں رکھتے ورنہ جو شخص اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہے وہ ڈاکٹر کے آنے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ خود ڈاکٹروں کے پاس جانے کی سعی کرتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کے علاج سے فائدہ نہ ہو تو دوسرے کے پاس جاتا ہے، اسی طرح روحانی امراض کے لئے بھی علماء کے پاس جانا چاہنے اگر ایک عالم کے جواب سے تشفی نہ ہو تو دوسرے کے پاس جانا چاہئے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہیں اس لئے کسی معاملے میں خود کو غلط نہیں مانتے اور علماء کے پاس جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ تیسری غلطی یہ ہے کہ بعض لوگوں کی یہ بری عادت بن چکی ہے کہ جن مسائل کا علم ان کو نہیں ہے دوسروں سے پوچھتے ہوئے ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتے اور ان سے حکمتوں اور دلائل کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ کم علم انسان کے لئے کسی عالم کی تقلید ضروری ہے کہ عالم کی تحقیق کو بلا مطالبہ دلیل کے مان کر عمل کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علماء کے پاس دلائل نہیں ہیں بلکہ بہت سارے دلائل ہیں مگر ہر شخص میں دلیل سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ لہذا آپ حضرات علماء کی طرف مراجعت کیا کریں اور جب تک مسئلہ کی وضاحت نہ ہو مسلسل پوچھتے رہیں اگر ایک عالم کی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس سے زیادہ ماہر اور ثقہ عالم کے پاس جائیں اس طرح آہستہ آہستہ آپ کی اصلاح ہو جائے گی۔
حکمت کی تقسیم:
حکمت یعنی فلسفہ تمام علوم کی بنیاد ہے۔ اس کی تعریف یوں ہے : ” واقعات کے مطابق حقائق کا ایسا علم ہو جانا کہ نفس کو پورا اعتماد حاصل ہو اس کا نام حکمت اور فلسفہ ہے۔“ پھر تقسیم اول کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:
(1) حکمت عملیہ: جو افعال انسانی اختیار اور قدرت میں ہیں ان کے علم کا نام حکمت علمیہ ہے۔
(2) حکمت نظریہ: جو افعال انسانی اختیار میں نہیں ان کے علم کا نام حکمت نظریہ ہے۔
Dars e Intibahaat e Mufeedah
By Mufti Faseehullah Shah