سلاسل تصوف
سلاسل تصوف
تصوف کے سلسلوں کی تاریخ، تعارف، خصوصیات اور حالات مشائخ مع تشریح اصطلاحات و مسائل تصوف
تالیف: مفتی اختر امام عادل قاسمی
عرض مؤلف
تصوف کی دنیا بہت پر پیچ اور ایک بحر نا پیدا کنار ہے ، علاوہ یہ خالص عملی چیز ہے ، نقوش و حروف سے اسے سمجھنا نا ممکن ہے ، جب تک اس دنیا میں انسان قدم نہیں رکھے گا اس کی گہرائیوں اور حقیقتوں کا پتہ نہیں چل سکے گا، ساحل کے تماشائی بیرونی مناظر سے صرف لطف اندوز ہو سکتے ہیں ، اور قیاس آرائیاں کر سکتے ہیں ، معرفت کی منزل نہیں پاسکتے ، امت کے بڑے طبقہ نے اس کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ، اس طبقہ میں ایسے ایسے لوگ شامل تھے ، جن کے علم و فضل اور تقویٰ و تقدس کی قسمیں کھائی جاسکتی تھیں، یہ وہ طبقہ ہے جس کی سربراہی ساری امت نے تسلیم کی ہے ، اور اپنی پلکیں ان کے احترام میں بچھائی ہیں ، اسی طبقہ کو صوفیاء کہا جاتا ہے ، صوفیاء کا سلسلہ نبی کریم صلی علی کم تک پہونچتا ہے ،ان کی ایک خوبصورت تاریخ ہے ، اور اس تاریخ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں انہی کتابوں کا عطر نچوڑ دیا گیا ہے، اور ضمناً تصوف کے بہت سے مسائل و اصطلاحات کی تشریحات بھی آگئی ہیں۔
یہ کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، بلکہ میری کتاب “حیات قطب الہند کا ایک حصہ ہے، لیکن اس کی علمی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر بعض احباب کی خواہش پر اس کو مستقل کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے ، تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھایا جا سکے، اللہ پاک اسے قبول فرمائے اور نفع عام کا ذریعہ بنائے آمین
اختر امام عادل قاسمی
جامعه ربانی منور واشریف، سمستی پور بہار ٢٠ / صفر المظفر ۱۴۳۵ھ م۸ / ستمبر ۲۰۰۲۳ء
سلاسل تصوف کی حقیقت
علم باطن بھی علم شریعت ہی کا ایک حصہ ہے، ظاہری احکام کی معرفت کا نام علم ظاہر ہے اور قلب ، نفس، اور اخلاق سے وابستہ احکام کے جانے کا نام علم باطن یا احسان ہے، جس طرح شریعت جسم ظاہر کی تطہیر کا حکم دیتی ہے اسی طرح جسم باطن کے تزکیہ و تصفیہ کا بھی پابند بناتی ہے ، بقول حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نفس کے نفع و ضرر کے ادراک کا نام فقہ ہے:
وعرفه الإمام الأعظم بأنه معرفة النفس مالها وما عليها لكنه يتناول الاعتقاديات كوجوب الإيمان والوجدانيات أي الأخلاق الباطنة و الملكات النفسانية والعمليات كالصلاة والصوم،
اسی لئے ہر دور کے علماء اور مشائخ نے علم باطن کو بے انتہا اہمیت دی ، اور علم ظاہر کی طرح علم باطن کو بھی پورے اہتمام کے ساتھ حاصل کیا۔ ہر سلسلہ تصوف کسی نہ کسی صحابی سے جاری ہوا
تصوف کے ہر سلسلے کا ایک روحانی شجرہ موجود ہے، جو کسی نہ کسی صحابی کے توسط سے نبی کریم سی ای کم تک پہونچتا ہے ، یوں تو ہر صحابی رشد و ہدایت کا چراغ ہے ، لیکن روحانیت و احسان کے باب میں چند صحابہ کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی ، اور تصوف کے مختلف سلسلے ان سے جاری ہوئے ، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری (ولادت غالباً ۸۱ دھیان بہ یا بدھ مطابق ۹۹۱ء يا هناء يان لاء – وفات ۲۲۵ھ ھ مطابق 191 ء یا اء یا اثناء میں ہوئی، آپ نے علم ظاہر حضرت ابو العباس بن محمد شقائی اور دیگر اساتذہ سے حاصل کیا، آپ بطن مادر ہی سے ولی کامل پیدا ہوئے تھے، لیکن روحانی تعلیم میں آپ کے مرشد حضرت ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی (م ۲۰ / ۲۸ء ) تھے ، آپ ان سے سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوئے، جیسا کہ خود آپ نے کشف المحجوب میں اس کا ذکر کیا ہے، ان کے وصال کے بعد اور بھی کئی معاصر مشائخ سے استفادہ کیا، مثلاً ابو القاسم بن قاسم عبد اللہ الگر گائی، ابو القاسم امام قشیری، حضرت شیخ احمد حمادی سرخی، حضرت ابو جعفر محمد بن المصباح الصيدلائی، حضرت ابوسعید ابوالخیر شیخ ابو احمد المظفر بن احمد بن حمدان کے علاوہ صرف خراسان میں تین سو (۳۰۰) مشائخ کا خود داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں ذکر کیا ہے، جن سے آپ کو ملاقات حاصل تھی، حضرت خضر علیہ السلام سے بھی استفادہ کیا۔ آپ حنفی المذہب تھے ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا نام انتہائی عقیدت کے ساتھ لیا ہے۔ آپ کی شادی والدین کی زندگی میں ہوئی تھی ، مگر اہلیہ مزاج شناش نہ تھیں ، اس لئے ان کی وفات کے بعد شادی نہیں کی ، گیارہ (۱۱) سال کے بعد ایک خاتون کے غائبانہ حسن و کمال کے اسیر ہوئے، لیکن اللہ پاک نے دستگیری فرمائی ، اور اس عورت کا خیال دل سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔
آپ نے کئی کتابیں تحریر فرمائیں ، آپ کی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کی آخری تصنیف ہے، اور اس سے قبل نو (۹) کتابیں آپ نے اور لکھی تھیں ، لیکن اب ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہے ، بعض کے سرقہ اور دوسروں کا اپنی طرف منسوب کر لینے کا واقعہ حضرت نے خود لکھا ہے ، بہر حال ان نو تصانیف کے نام یہ ہیں:
ا۔ دیوان، اس کو کسی نے اپنی طرف منسوب کر لیا (کشف المحجوب ص (۲) ۲- کتاب فنا و بقا ۳- اسرار الخرق والمؤونات ۲)۲- م الرعایة بحقوق اللہ تعالی۔ اس نام کی ایک تصنیف شیخ احمد بن خضرویہ (۲۳۰۴ھ) کی بھی ہے جو کشف المحجوب کے مآخذ میں شامل ہے، اور اسی نام کی ایک کتاب ابو عبد الله الحارث بن اسد المحاسبی (م ۲۲۳ھ) کی تصنیف بھی ہے، جو لندن سے چھپ چکی ہے۔ ۵۔ کتاب البیان لابل العیان ، ۶ محو القلوب ،ے۔ منہاج الدین ، طریقت ، تصوف ، اور مناقب اصحاب صفہ پر مشتمل ہے ، اور حسین بن منصور حلاج کا حال بھی بیان کیا ہے۔ دیوان کی طرح اسے بھی کسی نے اپنی طرف منسوب کر لیا۔ ۸- ایمان، ۹- شرح کلام منصور ایک کتاب کشف الاسرار کے نام سے حضرت داتا گنج بخش کی طرف منسوب ہے ، مگر تحقیق کے مطابق وہ جعلی ہے، حضرت کی کتاب نہیں ہے۔ البتہ کشف المحجوب آپ کی سب سے اہم تصنیف ہے، جو مسائل شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کا ایک بیش بہا گنجینہ ہے، اور اولیاء متقدمین کے حالات بابرکات اور ان کی مقدس تعلیمات کا بہترین خزینہ ہے، نیز فارسی زبان میں تصوف واحسان پر لکھی جانے والی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔ ہر دور کے اکابر اولیاء اللہ نے اس کو ایک بے مثل کتاب قرار دیا ہے۔ یہ کتاب آپ نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں تصنیف کی، اور اس کا تین چوتھائی حصہ یقینا لا ہور میں لکھا۔
کشف المحجوب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پاک و ہند کے اکثر شہروں کی سیاحت کی تھی ، اور آخری اقامتگاہ بننے کا شرف لاہور کی خاک کو حاصل ہوا، آپ کے لاہور آمد کی تاریخ میں اختلاف ہے، مگر قرین قیاس یہ ہے کہ ا ۲۵ھ و100ء میں لاہور تشریف لائے۔ حضرت داتا صاحب نے لاہور تشریف لاتے ہی اپنی فرودگاہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد
Salasil e Tasawwuf
By Mufti Akhtar Imam Adil
Read Online
Download (3MB)
Link 1 Link 2