صراط مستقیم
ملفوظات: امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ
جمع و ترتیب: حجه الاسلام مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحی بڑھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ترجمہ تحقیق اور حواشی: شاہ ارشد علی ندوی
ناشر: سید احمد شہیدا کیڈمی دار عرفات تکیہ کلاں، رائے بریلی
حضرت سید احمد شہید کے مختصر حالات زندگی
قطب العالم مجدد دین وملت حضرت سید احمد شہید کی ولادت با سعادت بمقام تکیه رائے بریلی صفر ۲۰ اجے کو سادات خاندان میں ہوئی۔ آپ کا خاندان بر صغیر کے برگزیدہ خاندانوں میں شمار ہوتا ہے، آپ حضرت سید شاہ علم اللہ نقشبندی کی اولاد میں سے تھے، جنھیں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی کے خلیفہ اجل حضرت سید آدم بنوری قدس سرہ سے نسبت بیعت و اجازت حاصل تھی۔
حضرت حسن کی شادی اپنے گم نام دار شہید کربلا حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی ، اس لیے اس خاندان کو حسنی حسینی کہا جاتا ہے۔ ابتدا ہی سے آثار رُشد و ہدایت آپ کی جبینِ مبارک میں روشن تھے۔ ذوق عبادت، شوق جہاد اور جذبہ خدمت خلق سن شعور ہی سے طبیعت مبارک میں راسخ تھا۔ شباب کا زمانہ قریب آیا تو والد ماجد کا انتقال ہو گیا، حالات کے تقاضے سے آپ نے پہلے لکھنو اور پھر دہلی کا سفر کیا۔ حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے خاندان سے آپ کے خاندان کے
گہرے روابط تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں :
دہلی پہنچ کر آپ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحب نے مصافحہ و معانقہ کے بعد دریافت کیا کہ کہاں سے تشریف لائے؟ آپ نے عرض کیا، رائے بریلی سے۔ فرمایا کس خاندان سے ہیں؟ عرض کیا وہاں کے سادات میں شمار ہے۔ فرمایا کہ سید ابوسعید صاحب وسید نعمان صاحب سے واقف ہیں؟ سید صاحب نے عرض کیا کہ سید ابوسعید صاحب میرے نانا اور سید نعمان صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔ شاہ صاحب نے اٹھ کر دوبارہ مصافحہ و معانقہ کیا اور پوچھا کہ کس غرض کے لیے اس طویل سفر کی تکلیف برداشت کی۔ سید صاحب نے جواب دیا کہ آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طلب کے لیے یہاں پہنچا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ددھیال اور نھیال کی میراث تم کو مل جائے گی۔ اس وقت شاہ صاحب نے ایک ملازم کی طرف اشارہ فرمایا کہ سید صاحب کو بھائی مولوی عبدالقادر صاحب کے یہاں پہنچا دو اور ان کا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ اس عزیز مہمان کی قدر کریں اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں، ان کا مفصل حال ملاقات کے وقت بیان کروں گا۔ سید صاحب حسب ارشاد اکبر آبادی مسجد میں ترجمان القرآن حضرت شاہ عبدالقادر صاحب کی تربیت میں ٹھہر گئے ۔ سید صاحب کو خاندانِ ولی اللہی کے ان دونوں بزرگوں سے استفادہ کا موقع ملا۔ شاہ عبد القادر صاحب کو سید صاحب سے بڑی محبت تھی۔ امیرالروایات میں ہے کہ شاہ عبد القادر صاحب نے سید صاحب کی بعض ادا ئیں دیکھ کر حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب سے انھیں مانگ لیا تھا۔
شرف بیعت :
سید صاحب نے حضرت شاہ عبدالقادر صاحب سے کچھ پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ چند دنوں کے بعد ایک شب جمعہ کو آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ شاہ صاحب نے طرق ثلاثہ چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ میں آپ کو داخل فرمالیا اور ذکر و اشغال تلقین فرمائے۔ سید صاحب مسجد اکبر آبادی میں مشغول حق رہتے تھے۔
حضرت شاہ عبد القادر صاحب نے بھی ایک مدت تک آپ کو سلوک کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ آپ کو چند دنوں میں اس قدر باطنی ترقی ہوئی اور وہ بلند مقامات حاصل ہوئے جو بڑے بڑے سالکین ومشایخ کو برسہا برس کی ریاضت و مجاہدہ سے کم حاصل ہوئے ہیں۔
آپ پر بیداری و خواب میں اس قدر انعامات الہیہ کی بارش ہوئی جس کی نظیر کم بزرگوں کی تاریخ میں ملتی ہے۔
رتبه بلند:
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃاللہ علیہ نی نیم کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
اس امت میں چالیس ابدال ہر وقت رہتے ہیں جن کے صدقے میں اہل زمین پر بارش برستی ہے اور انھیں رزق ملتا ہے اور انھیں کے صدقے میں نصرت حاصل ہوتی ہے۔ چہ عجب کہ سید احمد کو بھی ایسا ہی رتبہ مل گیا ہو اس لیے اُن کے مقام کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔“ ایک عرصہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کی خدمت میں رہنے کے بعد آپ اپنے وطن رائے بریلی تشریف لے گئے۔ دو برس کے قریب وہاں رہنا ہوا۔ اسی مدت میں آپ نے نکاح کیا۔ رائے بریلی سے ۱۲۲۶ھ میں دوبارہ آپ دہلی تشریف لے گئے ۔
نواب امیر خان کے لشکر میں :
۱۲۲۷ھ میں حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کی اجازت سے نواب امیر خاں والی ریاست ٹونک کے لشکر میں چلے گئے ۔ ” منظورۃ السعداء “ میں ہے:
بنابر الہا میکه در باب اقامت جهاد اقامت جہاد کے بارے میں آپ کو جو شد ربگر ائے لشکر ظفر اثر …. امیر الدولہ الہامِ ربانی ہوا، اس کی بنا پر آپ نواب نواب امیر خان بہادر مرحوم شدند امیر خاں کے لشکر کی طرف تشریف لے گئے حضرت سید صاحب نواب امیر خاں مرحوم کے لشکر میں چھ سال سے زائد رہے،
سید صاحب کے تذکرے اور تاریخیں اس زمانہ قیام کی کرامات اور واقعات غریبہ سے پُر ہیں۔ آپ نواب صاحب کو صحیح مشورے اور قیمتی امداد دیتے رہے۔
Sirat e Mustaqeem
By Syed Ahmad Shaheed