طب کا پہلا قاعدہ
قانون مفرد اعضاء کا تعارف اور طریقہ کار
حکیم شہباز حسین
پیش لفظ
میرے دل میں عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ طب کا کوئی آسان سا قاعدہ لکھوں جس کو پڑھ کر طب کے طالب علم اور شوقین حضرات کافی حد تک علم طب کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلہ میں ایک دو بار برادرم حلیم عروہ وحید سلیمانی صاحب اور برادرم ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب سے بھی بات ہوئی اور ہر وہ شخصیات نے کہا کہ ایسا قاعدہ لکھنا چاہیے۔
و امبر ۲۰۱۷ء کو کالی مرکز نزد فیضان مدینہ رحمان سٹی فیز و بالتقابل کان روڈ رچنا ٹاؤن بتی روڑ شاہدرہ میں جہاں میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو مریض دیکھتا ہوں، ایک طالب علم آغامحمدتقی مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے، اتفاق سے اس روز برادرم ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب بھی نکیال سیکٹر آزاد کشمیر سے مجھے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے، مریضوں سے فارغ ہونے کے بعد میری ان حضرات سے ملاقات کی نشست ہوئی تو آغامحمدنقی صاحب نے یہ سوال کیا کہ سر آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں علم طب سیکھوں یا چھوڑ دوں کیونکہ لاہور شہر میں قانون مفرد اعضاء کے ایک طبیب جو کہ خود کو حکیم انقلاب صابر ملتانی اللہ کا قریبی رشتہ دار بیان کرتے ہیں میں ان کے پاس حصیل علم کے لیے جاتا تھا، ایک دن کوئی سوال پوچھنے پر وہ برہم ہوگئے اور مجھے کہنے لئے کہ علم طب سیکھنا کوئی آسان کام نہیں میں نے خو۱۲ سال کی عمر میں تحر یک کلیل سین کو مل سمجھا ہے میں تمہیں یہ کیسے سمجھا دوں یہاں سے دفع ہو جاؤ اور آئندہ بھی میرے مطب پر نہ آنا تم بھی علم طب نہیں سیکھ سکتے ۔ یہ کہتے ہوۓ انہوں نے آئندہ کے لیے مجھے اپنے پاس آنے سے قطعا منع کر دیا ہے میں اور ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب یہ واقعہ سن کر حیران ہو گئے کہ ایسے لوگ بھی جہان طب میں موجود ہیں میں نے اس طالب علم سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں عالم دین ہوں اور طبیہ کالج میں تھر ڈائیر کا طالب علم ہوں یہ بات سن کر مجھے اور زیادہ حیرت ہوئی اور ان طبیب صاحب کی ذہنی حالت پر افسوس ہوا۔
بہر حال میں نے اس طالب علم کو کہا کہ علم کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کی میراث ہوتا ہے جو بھی محنت اور کوشش کرے اس کو سیکھ سکتا ہے، آپ تو طبیہ کالج میں تھرڈ ائیر کے طالب علم ہیں، آپ اس کو کیوں نہیں سیکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل طب سے موجودہ دور میں بہت کم طبیب آ گاہ ہیں اور عام لوگ تو ظاہری بات ہے صرف نسخہ جات کی حد تک ہی شوق رکھتے ہیں، اگر آپ طب سیکھنا چاہیں تو میرے پاس آ جایا کر میں میں جو خدمت کر سکا کروں گا۔ چونکہ اتفاق سے اس روز میرے عزیز دوست ڈاکٹر سلطان سکندر صاحب بھی آزادکشمیر سے آۓ ہوۓ تھے، انہوں نے بھی اس واقعہ کو سن کر اصرار کیا کہ آپ جلد از جلد قاعده طب لکھیں تا کہ ایسے طالب علم جو کہ علم طب کو سیکھنا چاہتے ہیں لیکن مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں ان کو رہنمائی مل سکے۔ اس واقعہ سے متاثر ہوکر میں نے اپنی تمام مصروفیات کو ترک کر کے فوری طور پر یہ طب کا پہلا قاعدہ لکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ قارئین طب کو پسند آۓ گا۔ یہ طب کا پہلا قاعدہ ابتدائی رہنمائی کے لیے ہے اس کو پڑھنے کے بعد دوسری طبی کتب کے مطالعہ سے ان شاء اللہ طالب علم اور شائقین طب ،علم طب کو سیکھ سکیں گے اگر کسی طبیب کو بالخصوص نئے اطباۓ کرام جو کہ نئے نئے طبیہ کالجز سے فارغ لتحصیل ہوتے ہیں اور ان کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسے اطباۓ کرام اگر رہنمائی کے لیے میرے پاس آنا چاہیں تو ضرور آئیں میں ان شاء اللہ ان کی ہرممکن رہنمائی کروں گا ایسے طبیب جو کہ طب کے مزاجوں کو سمجھنا چاہیں وہ بھی اس سے مستفید ہوں گے، میں نے اس طب کا پہلا قاعدہ کو اغلاط سے پاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر پھر بھی اگر کوئی غلطی قارئین کو نظر آۓ تو آگاہ کریں تا کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دی جاۓ۔
حکیم شہباز حسین اعوان کمالی سوہدروی