کیا عوام الناس کو ترجمہ قرآن پڑھنا منع اور ناجائز ہے۔۔؟؟

عوام الناس کو ترجمہ قرآن پڑھنا

کیا عوام الناس کو ترجمہ قرآن پڑھنا منع اور ناجائز ہے۔۔؟؟

آج کل ایک غلط بات مشہور کر دی گئی ہے کہ عوام کو ترجمہ قرآن پڑھنا یا کسی آیت، رکوع کا مفہوم علماء کی تفاسیر سے ذہن نشین کر کے بیان کرنا نا جائز ہے۔ چنانچہ اس غلط بات کو پھیلانے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں اور عوام نے قرآن کریم کو محض برکت حاصل کرنے کی کتاب سمجھ کا طاق نسیان میں رکھ دیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہاں 200 سال تک انگریز حکومت کر کے گیا ہے، اس نے دین اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح کے جتن کیے، کبھی مدارس منہدم کیے تو کبھی علماء کوتوپوں کے آگے کھڑا کر کے اڑا دیا گیا، کبھی علماء کو پھانسیاں دیں تو کبھی لاکھوں قرآن مجید کے نسخے جلائے گئے لیکن انگریز کو اندازہ ہو گیا کہ بزور طاقت اور اسلحہ کے بل بوتے پر ہم مسلمانوں سے اسلام اور قرآن سے لگاو نہیں ختم کر سکتے ، چنانچہ انہوں نے مختلف تکنیک اور حربوں پر تحقیقات کیں اور باالاخر انگریز فرقہ واریت اور اختلافات کا بیج بو کر چلا گیا اور آج تک ہم اسی فرقہ واریت اور آپس کے فروعی اختلافات میں پھنسے ہوئے ہیں، اسی طرح قرآن مجید سے دور رکھنے کے لئے ایسی باتیں مشہور کر دیں کہ عوام کا تعلق قرآن سے نہ ہو۔ حالانکہ اگر ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی زندگیوں اور تحریروں کو دیکھیں تو انہوں نے ساری زندگی عوام کو قرآن سے جوڑنے میں لگائی اور اسی بات کی دہائی دیتے دیتے دنیا سے چلے گئے۔ میں نے اپنے ان گناہ گار کانوں سے یہ بات بھی سنی ہے کہ اگر عام لوگ ترجمہ قرآن پڑھیں گے تو گمراہ ہو جائیں گے، یہ ترجمہ پڑھنا صرف علماء کا کام ہے۔ حیرت ہوتی ہے دشمن نے کتنی محنت کی ، قرآن کریم کے متعلق کیسی کیسی باتیں پھیلا دی گئی ہیں، چنانچہ آج لوگ قرآن کو ہاتھ میں لینا گوارہ نہیں کرتے حالانکہ قرآن کا احترام ان کے دلوں میں بہت ہے، اسے چومتے ہیں، اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے ، اس سے اونچا نہیں ہوتے لیکن پڑھنا صرف علماء کا کام ہے۔ فہم قرآن کے دو پہلو ہیں، ایک تدبر فی القرآن اور دوسرا تذکر بالقرآن۔

تدبر فی القران کے لئے بلاشبہ بہت سے علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے جیسا کہ مفسرین نے لکھا کہ تیرا چودہ علوم پر دسترس ہونی چاہیے، میرے خیال میں یہ بات بھی پرانی ہو چکی ہے، آج کل تدبر فی القرآن کے لئے کم از کم ہیں پچھیں علوم جن میں جدید علوم اور فلسفے بھی شامل ہیں ان سب پر مہارت ہونا ضروری ہے، آج کل مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب اتنا ناقص ہے کہ وہ ایسے علماء پیدا ہی نہیں کر سکتا جو تد برفی القرآن کی صلاحیت رکھتے ہوں، چہ جائیکہ ہم دورہ حدیث سے فارغ ہوکرسند لینے والے کو اس قابل سمجھیں کہ وہ تدبر فی القرآن کی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ جہاں تک تعلق ہے تذکر با القرآن یعنی قرآن سے نصیحت حاصل کرنا تو اس بارے میں خود قرآن کہتا ہے: ولقد يسرنا القرآن لذكر فهل من مدکر ؟ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ، اور یہ فصیحت کا پہلو بلاشبہ محض ترجمہ پڑھنے والے کو بھی میسر ہوتا ہے۔

یا در کھیئے ! قرآن اللہ کی معجزانہ کتاب ہے اس کو پڑھ کر گمراہی نہیں ہدایت پھیلتی ہے، یہ انسان کے دل میں اس حقیقی ایمان کو اپیل کرتا ہے جو انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر رکھا ہوا ہے، یہ اس حقیقی ایمان کی چنگاری کے لئے پٹرول کا کام کرتا ہے، اور اسے یک دم بھڑکا دیتا ہے۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ یورپ میں جدی پشتی انگریز غیر مسلم قرآن کریم کا محض ترجمہ پڑھ کر مسلمان کیوں ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان کو تو عربی زبان اور ناظرہ قرآن بھی پڑھنا نہیں آتا۔

Kia Awam ko Tarjuma Quran Paharna Mana hay.?

Read Online

کیا عوام الناس کو ترجمہ قرآن پڑھنا منع اور ناجائز ہے۔۔؟؟

Quran ka Tarjuma Paharna
عوام الناس کو ترجمہ قرآن پڑھنا

Download

قرآنی سورتوں کا خلاصہ

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.