غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت
غامدی صاحب کا تصور سنت
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور سنت کے بارے میں الشریعہ کے صفحات میں ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے مختلف اصحاب قلم اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی بعض مضامین میں اس کا تذکرہ کیا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے سنت نبوی کے بارے میں جو انوکھا تصور پیش کیا ہے، اس کے جزوی پہلووں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کی اصولی حیثیت کے بارے میں بھی بحث و مکالمہ ضروری ہے تا کہ وہ جس تصور سنت سے آج کی نسل کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس کا صحیح تناظر سامنے آئے اور اس کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں متعلقہ حضرات پورے اطمینان کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ اسی پس منظر میں گفتگو کے آغاز کے طور پر چند گزارشات قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ محترم غامدی صاحب بھی اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اس مکالمہ میں خود شریک ہوں گے اور اپنے قارئین، سامعین اور مخاطبین کی راہ نمائی کے لیے اپنا کر دار ادا کریں گے۔ محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ اشراق لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف پیش کیا ہے اور ان کے یہی ارشادات ہماری ان گزارشات کی بنیاد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں محمد رفیع مفتی صاحب فرماتے ہیں:
Ghamdi ka Tasawwur Hadith wa Sunnat
By Maulana Zahid ur Rashdi