فقہ و حدیث میں علماء احناف کا مقام
فقہ حنفی کا مختصر تاریخی ارتقاء
خدائے ذوالجلال نے ابو البشر سید نا آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین، جناب رسول اللہ صلی ال تیک برگزیدہ انسانوں کی ایک مقدس جماعت کو مبعوث فرمایا جو آسمان رشد و ہدایت کے تابندہ و درخشندہ کہکشاں تھے۔ ہر دور میں اللہ رب العزت نے ہر نبی کی قوم کے شایانِ شان اور بشری تقاضوں کے مطابق ایک کامل اور جامع دستور حیات نازل فرمایا تاکہ اس کی روشنی میں انسانیت خدا کی معرفت حاصل کر سکے اور انبیاء کے لائے ہوئے دین کو حرز جان بنا سکے ۔ کم و بیش تمام انبیاء کے ایسے انصار و حوار بین رہے ہیں جنھوں نے ان برگزیدہ ہستیوں کی رہنمائی کے مطابق اپنے دینی اور دنیوی امور کو ڈھالنے کو سعادت سمجھا اور ان کے ایک ایک حکم اور اشارے پر اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ لیکن تمام انبیاء کے دور میں انسانوں کی ایک بڑی جماعت ان کی مخالفت کرتی رہی، ان کی دعوت کو والے درمے مجھے قدمے نقصان پہونچاتی رہی، اور اس طرح سے شقاوت و بد بختی ان کا مقدر بن کر رہ گئی۔ یہی نہیں؛ بلکہ انبیاء کی ایک بڑی تعداد کو بنی اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہیک کیا گیا۔ العیاذ باللہ۔
انبیاء کرام کے اس دار فانی سے دار جاودانی کی جانب کوچ کرتے ہی متعدد دینی فرقے اور سیاسی جماعتیں اپنا نا پاک ایجنڈا لے کر سماج کے سامنے ظاہر ہوئیں۔ بعض نے ان انبیاء کی مقدس کتابوں میں تحریف کا بیڑا اٹھایا اور کتب مقدسہ کو ردو بدل کر کے تحریر مشق بنادیا، جب کہ بعض دیگر فتنہ پردازوں نے انبیاء کے دین میں خرافات و اوہام، اور بے سروپا باتوں کو داخل کر کے دین کے ساتھ بد ترین تمسفر کیا، اور اس طرح سے خدا کے ذریعہ یہ بھیجی ہوئی کہتا میں تحریف کی نذر ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لیے سلمان زیغ و ضلال بن گئیں۔ لیکن اللہ رب العزت نے انسانیت کے لیے اپنے سب سے آخری نبی محمد صلی الیکم کا انتخاب فرمایا اور آپ کو ایسی کتاب عطا کی جس کو ہمیشہ تمام تحریفات اور ردو بدل سے محفوظ رہنے کی خدائی ضمانت دے دی گئی ہے اور جسے کوئی بھی شخص کسی بھی دور میں تحیہ مشق نہیں بنا سکتا۔ چنانچہ قرآن جس طرح رسول اللہ صلیالی و کمی کی زندگی میں پورے طور پر محفوظ تھا، بالکل اسی طرح سے یہ مقدس وحی آج بھی امتِ مسلمہ کے سامنے محفوظ ہے جس میں کسی بھی رو و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ قرآن تمام سابقہ کتابوں کا نچوڑ، تکملہ اور تتمہ ہے اور تا روز قیامت پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے آخری مصدر رشد و ہدایت ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے اسے انتہائی جامع اور مکمل ترین شکل میں آخری وحی کے طور پر بھیجا، اور یہی کتاب مسلمانوں کا سب سے بڑا فقہی اور تشریعی مصدر ہے۔ رسول اللہ صل علیم اور آپ کے اصحاب کے اقوال وافعال، ارشادات و ہدایات گویا کلام اللہ ہی کی شرح و تو صحیح ہیں۔ دور نبوی میں خود رسول اللہ علیم تمام فقہی، سیاسی، علمی، اور اعتقادی مسائل کا حل اپنے اصحاب کے سامنے بقدر ضرورت پیش فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کو جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا، تو یہ حضرات بار گاہِ رسالت کی جانب رجوع فرماتے اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر لیتے۔ لیکن آپ مئی میں یکم کی وفات کے بعد اسلام دور دراز ممالک میں پھیل گیا اور امت کے سامنے نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگے ۔ عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں نے مسائل اور استفتاء کے لیے فطری طور پر مستند علماء وفقہاء کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ صحابہ میں ایک تعداد ایسی تھی جو مسائل وفتاوی میں شہرت رکھتی تھی جنھیں فقہاء صحابہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حزم ظاہری نے “النبذ في أصول الفقه “ میں اور امام ابن القیم نے إعلام الموقعین“ میں ان مجتہدین صحابہ کی تفصیل پیش کی ہے جن کی خدمت میں حاضر ہو کر صحابہ کرام اور تابعین عظائم اپنے دینی مسائل کا حل طلب کیا کرتے تھے ۔
یقیناً صحابہ میں ایک جماعت اجتهاد و فتاوی کی ذمہ داری انجام دیتی تھے؛ لیکن عام طور پر ان کا یہ کام انفرادی ہوا کر تا تھا۔ ان کا کوئی مکتب فکر اور منظم مدرسہ نہیں تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ منظم طور پر فقہ واجتہاد کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے مورخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے صحابی جن کو منظم اور اجتماعی انداز سے فقہ وفتاوی کے موضوع پر کام کرنے کا شرف حاصل ہے وہ ہمیں معلم الامة استاذ المسلمين، مجتہد اعظم، حلال المشكلات، خادم رسول، منبع الفقه والفتياء خمارم الرسول، صحابی جلیل سید نا عبد الله
Fiqh o Hadith mein Ulama e Ahnaf ka Maqam
By Allama Zahid Al Kausari
Read Online
Download (3MB)