قتل مسلم اسباب و وجوہات، احکام و مسائل
مقتل مسلم کی شاعت اور اس کی ناجائز صورتیں
ناحق کسی انسان جان کا قتل کرنا ان گناہوں اور جرائم میں سے ایک ہے جس کے جرم عظیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، نقل کے لحاظ سے کسی مذہب میں اس کی اجازت ہے نہ ہی عقل کے لحاظ سے کوئی عقل سلیم رکھنے والا شخص اس کی اجازت دے سکتا ہے، اخلاق و تمدن کے لحاظ سے بھی یہ نہایت عظیم جرم کی بات ہے، دنیا کا کوئی قانون ومذہب ہمیں معلوم نہیں ہے جو ناحق قتل انسان کو جائز قرار دیتی ہو نہ ہی کسی عقل سلیم کے ہاں اس کی کوئی گنجائش ملتی ہے، اس لئے اس سے متعلق کچھ زیادہ تفصیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ایک دو آیات اور ایک دو احادیث ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جائے گا، اس کے بعد ان صورتوں کی تفصیل ذکر کی جائے گی جہاں حد یا تعزیر کے طور پر قتل کرنا جائز یا ضروری ہوتا ہے اور ساتھ اس کے حدود و قیود ذکر کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ قتل انسان؛ ایک عظیم جرم و گناه
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں انسانی جان کے قتل کو عظیم جرم، نہایت مذموم اور کبیرہ گناہوں کے سر فہرست شمار فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے؛
{ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا }
ترجمہ : ” اور جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کا ٹھکانہ جہنم
ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ تعالی کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ تعالی نے ایسے شخص کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے”۔
اس آیت مبارکہ میں کسی مسلمان کے ناحق قتل کرنے پر درج ذیل سزاؤں کا ذکر
کیا گیا ہے؛
جہنم میں جانا۔ ۲: جہنم میں ہمیشہ رہنا۔ ۳: اللہ تعالی کے غضب کا مورد بننا۔ ۴: اللہ تعالی کی لعنت کا اترنا۔ ۵: اللہ تعالی نے ایسے شخص کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ان پانچوں سزاؤں میں سے ہر چیز بجائے خود بہت ہی نقصان و خسارہ کا باعث ہے، ناحق قتل کرنے والے شخص کو ان سب چیزوں کا سامنا کرنا ہو گا۔اس آیت کریمہ کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ ناحق قتل کا مجرم ان سب بدلوں سے ضرور حصہ پائے گا۔
صحیح بخاری” کی روایت ہے؛
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليـه وسلم قال: «اجتنبوا السبع الموبقات»، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: «الشرك بالله والسحر، وقتل النفس
التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، [النساء: ٩٣]
والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات
ترجمہ : حضرت ابوھریرہ سے آپ میلی یتیم کا یہ ارشاد گرامی نقل ہے کہ :” ہلاک کرنے والے سات (۷) گناہوں سے اپنے آپ کو بچاؤں، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہیں ؟ آپ میی یتیم نے فرمایا: اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک بناما، جادو کر ماہ کسی کو ماحق قتل کرما، سودی معاملہ کرما، یتیم کا مال کھانا، جہاد کے میدان سے بھا گیا، پاکدامن عورتوں پر تہمت لگا ما”۔ اس روایت میں جن سات چیزوں کو مہلک قرار دیا گیا ہے ،ان میں سے ایک ” قتل نفس ” کو بھی شمار فرمایا گیا ہے، ان میں سے پہلی مہلک چیز تو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہر اما ہے، دوسری چیز سحر کرتا ہے ، شرک کا حکم تو ظاہر ہے کہ انسان کو دائرہ دین و اسلام سے خارج کر دیتی ہے اور سحر بھی عام طور پر شرک یا کفر کا موجب بنتا ہے ، ان دونوں کے علاوہ جن پانچ چیزوں کو اس روایت میں گنوایا گیا ہے ، وہ ایسے ہیں جو فی نفسہ موجب کفر نہیں ہیں اور ان میں سے سب سے پہلے قتل کا ذکر کیا گیا ہے جس سے اس گناہ کی سنگینی اور حد درجہ مذمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، گویا موجب کفر امور کے بعد سب سے زیادہ قابل مذمت اور سنگینی کا موجب یہی اقدام کرنا ہے۔ ” صحیح بخاری” ہی میں ایک اور جگہ روایت ہے :۱۰ صحيح البخاري، ج ٤ ص ١٠
10th Class Computer Science Free Test
Qatl e Muslim Asbab, Ahkam, Masail
By Mufti Ubaid ur Rahman
قتل مسلم اسباب و وجوہات
Read Online
Download (1MB)