ملفوظات محدث کشمیری

محدث کشمیری

ملفوظات محدث کشمیری

الحمد لا هله والصلوة لاهلها

قطع نظر شرعی اصطلاحات و مصطلحات متکلمین سے بخدا آنے والی بات ذہنی ارتداد کا مظہر نہیں بلکہ تمام ہی اجزائے شریعت و متکلمین اسلام کی کاوشوں و دیدہ ریزیوں کو دل و جان سے تسلیم کرنے کے باوجود جو کچھ اس وقت کہنا اور لکھنا ہے وہ اس معذرت کے ساتھ مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات کیا ہے قرآن مجید سب کچھ تسلیم کرنے کے لینے کے باوجود بہر حال خدا تعالیٰ کے ملفوظات وارشادات عالیہ کا مجموعہ اور تئیس سالہ عہد نبوت کا سارا ذخیرہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیش بہا ملفوظات گرامی قدسی صفات صحابہ کا مجمع لگتا’ حلقہ اندر حلقہ بیٹھتے اور قدسی الاصل صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا سلسلہ چلتا اب چاہے تو انہیں حدیث کہہ دیجئے دل چاہے تو کلام رسول اور اگر پیچ ماں کی تعبیر گوارا ہو تو ملفوظات النبی الامی صلے اللہ علیہ وسلم روحی فداہ رسالت کا عہد میمون دھیرے دھیرے ختم ہوا اور ایک وجود اقدس صلے اللہ علیہ وسلم نے خاک دان ارضی کو چھوڑ چھاڑ کر دوسرے عالم کی رونقیں بڑھا ئیں تو اصحاب النبی صلے اللہ علیہ وسلم تابعین و تبع تابعین امت کی اصلاح کے ذمہ دار بن گئے یہ تنکا تنکا چن کر علم و آگہی کا آشیانہ بناتے مستفیدین قطار اندر قطار آتے اور النبی الامی صلے اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات سے نہ صرف تیرہ باطنی کا علاج بلکہ تیرہ و تار ماحول کو انوار نبوت سے روشن ومنور کرتے یہ قرن بھی نمٹ گیا تو علماء نے مسندیں سنبھالیں درس گاہوں سے علم کی تقسیم اور دانش کدوں سے دانشوروں کی فیاضی پورے عالم میں موجیں لینے لگی انوار نبوت حال سے دور ہو رہے تھے ماضی اپنی تمام برکات کے ساتھ دامن سمیٹ رہی تھی ظاہر تو ٹھیک ہو رہا تھا لیکن باطن کی کائنات اندھیریوں سے روابط وضوابط بڑھا رہی تھی ٹھیک اس وقت میں صوفیہ صافیہ کھڑے ہوئے اور نہاں خانہ باطن کو یقل کرنے کے لئے اذکار و اشغال کے کچھ مسنون اور کچھ طبع زاد طور و طریق سنبھال بیٹھے خانقاہیں ہو حق سے لبریز ہو گئیں ۔ نالہ سحر گاہی عرش تک جا پہنچے ارض وسما کی مسافتیں سمٹ گئیں ( بشاشت ایمان دلوں میں رچی ) اعمال کی نورانیت سراپا پر کھلی غنچہائے دل چنکے معرفت ربانی کے زمزمے بلند ہوئے اور اس طرح اسلام کی گاڑی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لائن پر ڈالا تھا تیز رفتاری سے منزل کی طرف بڑھ گئی۔

موجودہ ریلوے نظام نے ریلوے سسٹم کو شہروں، قصبات اور دیہات تک پہنچا دیا بجلی کے تقے قریہ قریہ نظر افروز ہیں۔ ڈسپنسریاں گاؤں گاؤں کھل گئیں مدارس و مکاتب کا جال ادھر سے ادھر تک پھیل گیا تو دین کی گاڑی بھجوائے قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر خشکی تری شہر اور قریہ میں جاپہنچے تو استحالہ کیا ہے اور استعجاب کیوں؟ حضرات صوفیاء مجالس جماتے ان کے ملفوظات دلوں کو گرماتے دماغ روشن ہو جاتے نہاں خانہ باطن چمک اٹھتا نیکی سے قرب بدی سے بعد شر سے بجانب خیر برائی سے بسمت بھلائی قافلے سرگرم سفر ہوتے یہ ملفوظات آج بھی امت کا اثاثہ ہیں۔ ان میں وہی سوز و گداز وہی گرما گرمی اعمال خیر کی جانب متوجہ کرنے کی وہی قوت مزکی و مقدس بنانے کی وہی استعداد زندہ و توانا ہے۔ الشیخ عبدالقادر جیلانی المعروف بغوث اعظم کے ارشادات اب بھی لوہے کو پارس بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیخ رفاعی کا کلام بدستور تیز وتند ہے۔ فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم کے نعرے آج بھی جوش زن ہیں۔ ابن جوزی کا کلام آشنا برودت نہ ہوا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی، خواجہ نقشبند داعی الی اللہ شیخ جمیری کا سرمایہ بدستور باعث گرمی محفل ہے۔ محبوب الہی یعنی سلطان دیلی کے فوائد الفواد اور افضل الفوائد ہنوز دلوں کے تار چھیڑتے ہیں خواجہ باقی باللہ کے ارشادات قلب و دماغ تک اثر ڈالنے میں کسی سے کم نہیں، مجددالف ثانی کے مکتوبات کساد بازاری کی زد میں نہیں اور ذکر کیوں چھوڑیئے قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے شیخ مرزا مظہر جان جاناں کا اور ان کے مستر شد مولانا غلام علی کا اور جہاں آباد کے شیخ کلیم اللہ کا اور کیا فراموش کر سکتے ہیں ماضی قریب کی پر نور شخصیت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کو کہ ان سب کے ملفوظات مغتنمات باردہ یا گنجینہ بادآورد ہیں۔

اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ صوفیاء کے ملفوظات نے وہ کام کر دکھایا جو عصر حاضر کے قلم کاروں کے بھاری بھر کم لٹریچر سے ممکن نہ ہوا مولانا تھانوی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات ہزار ہا ہزار زندگیوں کو اسلام کی حقیقت سے آشنا احسان کی گہرائیوں سے واقف عرفان رب کے البیلے سبق اور صفائی معاملات کے موثر درس دے رہے ہیں۔

ھر یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص کا کلام اس کی افتاد طبع کا آئینہ دار اور اس کے مزاج کا ترجمان ہوتا ہے خدا تعالی کا کلام کلاموں کی بادشاہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کاروان انسانیت کے سنگ میل ہیں۔ صوفیہ کا لٹریچر سب سے ٹوٹ کر خدائے واحد سے رشتے استوار کرنے کا مضبوط وسیلہ ہے اور اہل علم کے ملفوظات میں علم و دانش کا تموج مہیا ہے آج بھی تجربہ کر لیجئے اہل باطن کی چیزیں پڑھ کر باطن کی کائنات آراستہ ہوگی اور زایغین کے لٹریچر کے مطالعہ سے قلوب تیرہ و تارہوں گے۔

ہندوستان کے دور غلامی کی بارہویں صدی کا اختتام اور تیرھویں صدی کا آغاز انسانی زندگی کی فصل بہار ہے ہر گوشہ اور ہر شعبہ میں وہ عظیم ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے کارناموں سے اعلان کر دیا۔

ثبت است بر جریده عالم دوام ما

صحافت ہو کہ انشاء نثر نگاری ہو کہ شاعری سیاست ہو کہ قیادت طباعت ہو کہ حذاقت علم ہو کہ دانش دانش ہو کہ بینش ہر گوشہ میں منفر داشخاص ہوئے، منقطع النظیر اور بے مثال زمانہ قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ جدید علوم اپنے پھر میرے اڑا رہے ہیں ۔ نت نئے انکشافات اپنا لوہا منوا رہے ہیں اور انسان سمندروں کی گہرائی تک جا پہنچا۔ مائل بہ پرواز ہوا تو چاند پر جا اترا۔ مارکیٹ جدید کتابوں سے لبریز ہے۔ طباعت کے نئے طریقوں نے حیرت زدہ منظر دکھائے مگر بارہویں صدی کا خاتمہ اور تیرہویں صدی کا اوائل اپنی بو قلمونیوں کے ساتھ لوٹ کر نہیں آسکتا۔

Malfuzat e Shaykh Muhammad Anwar Shah Kashmiri

ملفوظات محدث کشمیری

Read Online

Version 1

Download

Version 1 [18]

 

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.