مسلم معاشرے کا نظام تعلیم
پیش لفظ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قوموں کے باہمی ایک دوسرے پر غلبہ پانے اور ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے اور دوسروں سے اہم متصور ہونے میں وہی قوم نمایاں کردار ادا کرتی ہے جو عظیم تصور عدل کی داعی ہو ۔ اور علمی میدان میں اپنے تصور عدل کی فوقیت وعلویت بھی ثابت کر سکے کسی قوم کی عسکری و مادی فتح کی بقاء بھی اس عمل کے بغیر ممکن نہیں ۔ فاتح قوم اپنی فتح کے دوام کے لئے یا تو اپنے تصور عدل کو علمی دلائل سے مستحکم کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو مضبوط علمی دلائل پر قائم کوئی دوسرا تصور عدل اختیار کر لیتی ہے وگر نہ نا پختہ علمی دلائل پر کھڑا تصور عدل محکومین میں بغاوت پیدا کرتا ہے۔ علمی میدان میں استحکام کے بغیر محض عسکری غلبہ دیر پانہیں ہوا کرتا۔ انسانی تاریخ میں تہذیبی ترقی اور تمدنی ارتقاء کا موثر ترین ذریعہ تعلیم ہے۔ تعلیم انسانی اذہان میں تبدیلی کے ذریعے انسانی کردار کی تعمیر وتخریب کا باعث بنتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی علاقے کا نظام تعلیم وہاں کے باشندوں کے نظریہ حیات، ترجیحات اور سماجی و مذہبی اقدار کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔ اور اگر یہ نظام تعلیم صحیح خطوط پر استوار نہ ہو تو قوم اپنے مقصد حیات اور نصب العین سے دور جا نکلتی ہے۔ علم کی اہمیت اور علمی تناظر کا درست ہونا کس قد راہم ہے۔ دین کا طالب علم اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کیونکہ دین مبین کی پہلی وحی ہی تعلیم کے بارے میں ہے اور ابتداء میں بھی تعلیمی تناظر کی درستگی کروادی گئی ہے۔
اقرأ باسم ربك الذي خلق
ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ہے۔ یعنی مسلمان صرف معلومات ہی اکٹھی نہیں کرتا بلکہ معلومات کو اس تناظر میں جمع کرتا ہے کہ یہ معلومات معرفت الہی کا باعث بننی چاہیے تب علم کا مقصد پورا ہو تا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب الذی خلق کے تناظر میں کوئی بھی علم حاصل کیا جائے ۔ وہ دینی معلومات ہوں یا کہ سماجی ، معاشی ، معاشرتی یا پھر سائنسی ادراکات ہوں ہر ایک معرفت خداوند کریم پیدا کرتی ہیں۔ تعلیم پر جس قسم کے اثرات ہوں گے، معاشرے کے رجحانات پر اس کا اثر مرتب ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے میں چلنے والے نظام تعلیم کو اسلامی فکر کے علاوہ کسی بھی دوسری فکر سے پاک رکھنا اس وقت کے صاحب علم افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ معاشرے کے رجحانات اور ترجیحات اسلامی مزاج کے مطابق ہوں ۔
مسلم معاشرے کا نظام تعلیم اگر علم کے میدان میں ایک قوم اپنے اہداف و مقاصد سے جاہل ہو جائے اور دیگر اقوام کے زیر اثر علمی کاوشیں اور تحقیقات جاری ہوں تو نتیجتا فکری غلامی اور اپنے اقدار سے بغاوت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر تحقیق ہذا میں مسلم معاشرے کے نظام کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پاکستان کے تناظر میں لیا گیا ہے۔ کہ نظریاتی اساس پر قائم کئے جانے والے اس ملک کا نظام تعلیم نظریہ پاکستان کے مین مطابق ہے یا کہ فکری تضاد موجود ہے۔ اس ضمن میں پہلے باب میں تعلیم کے بارے میں بنیادی نظریات اور اس کا اسلامی نظریہ تعلیم سے تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
باب دوئم میں خاص طور پر پاکستان کے نظام تعلیم کا تعارفی و تجزیاتی جائزہ پیش کرتے ہوئے ، پاکستان میں مختلف نظام ہائے تعلیم سرکاری و غیر سرکاری کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کا معاشرے کی تشکیل سازی میں کردار واثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی نظام تعلیم پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل اور قومی تعلیمی پالیسیوں پر بات کی گئی ہے۔
باب سوم میں پرائمری ، مڈل اور سکینڈی کلاسزز کی نصابی کتب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ باب چہارم میں مختلف نصابی مضامین کی تدریس اور تناظر پر مغربی فکر کے اثرات کو نمایا کیا گیا ہے ۔ آخری باب میں تعلیمی ماحول اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں پر مغربی فکر کے اثرات کا جائزہ لینے کے علاوہ مشاہیر کی اس موجودہ نظام کے بارے میں آراء اور تبصروں کو بھی زیر بث لایا گیا ہے۔ تا کہ تحقیق ہے کے ذریعہ اسلامی نظریہ تعلیم اور اس کے اثرات داستانی نکھر کر سامنے آنے کے علاوہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمارے لئے کوئی مضبوط تعلیمی لائحہ عمل طے کرنے راہ ہموار ہو۔
طالب دعا : محمد احمد
فاضل جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد متخصص جامعہ انوار القران، کراچی
شب جمعه ۲۹ محرم الحرام ۱۴۳۹ھ
Muslim Muashray ka Nizam e Taleem
By Prof. Mufti Muhammad Ahmad
Read Online
Download (8MB)