مصباح الادویہ
حکیم عبدالصمد خان
اظہار خیال
حکیم شمس الآفاق
وزارت صحت حکومت ہند ، نئی دہلی
جسم انسانی صحت و مرض کا مجموعہ ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ انسان بھی صحت مند رہتا ہے تو بھی مرض کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ صحت مند رہتا ہے تو یہ ایک نعمت خداوندی ہے اور اگر بیمار ہو جاتا ہے تو کرب و بے چینی اور رنگ و تکالیف میں مبتلا رہتا ہے اور نت بار کہلاتا ہے اس لئے اطباء نے بار انسان کی تکالیف کو دور کرنے اور زائل شده محنت کی واپسی کے لئے جڑی بوٹیوں کا سہارا لیا اور دوائیں دریافت کی ہیں جو اب ترقی یافتہ دور میں اصطلاحا علم الادویہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو فن طب کے لئے ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کے بغیر فن طب کا تصور تا قص وادھورا ہے۔ علم الادویہ کا شمار طب یونانی میں ایک اہم مضمون کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دوائیں کیا ہیں۔ اس کی تعریف کی ہے۔ یہ کیسے جسم انسانی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات معلوم کرنے کے کیا طریقے اطباء نے اختیار کئے ہیں فن علم الادویہ میں ان موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔
مصباح الادویہ
کتاب مصباح الادویہ مؤلف حکیم عبدالصمد خان صاحب میرے ہاتھ میں ہے۔ پڑھنا میری عادت ہے بلکہ اچھی کتاب پڑھنا میری بہت بڑی کمزوری ہے چونکہ علم عبدالصمد خان صاحب کو درس و تدریس کا ایک طویل تجربہ ہے اور شعبہ علم الادویہ سے ان کا در پی تعلق رہا ہے اس لئے کتاب کو اور بھی توجہ سے دیکھنے کا ذوق پیدا ہو ابقيت حکیم صاحب موصوف نے دوران درس و تدریں طلباء طب یونانی کے مزاج کو بھی سمجھا ہو گا۔ تمہیں تجربات سے بھی واقفیت حاصل کی ہو گی یہی وجہ ہے کہ حکیم صاحب نے قدیم طبی سرمائے کا مطالعہ کر کے طلباء کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر علم الادویہ کے بنیادی اصول بہت ہی سائینٹفک اور علمی انداز میں قتل و غیر مانوس الفاظ سے بچتے ہوئے سلیس اور آسان زبان میں تحریر کیا ہے جس میں دوا، غذا، اور دو از والخاصہ کی تعریف اور غذا میں فرق، تفصیلی مزاج ادویہ ، ادویہ کے اجزائے ترکی، کیفیات ادویه ، درجات ادویہ ، دواء کی، تاثرات ادویہ اور اس کے مختلف احکامات، دوا جسم انسانی میں کیسے جذب ہوتی ہے اور اس کے تاثیر، ادویہ کی طبعی خصوصیات، قیاس اور تجر بہ دوا جسم انسانی میں کیسے جذب ہوتی ہے اور اس کی تاثیر، ادویہ کی طبعی خصوصیات، قیاس اور تجر بہ قیاس کے مقابلے میں تجربہ کی اہمیت، ان کی طبی و کیمیاوی خصوصیات پر اعضاء انسانی پر ادویہ کے تاثرات اشکال ادویہ ، ادویہ کی عمریں، ابدال ادویہ، اقسام ادویہ باعتبار افعال و تاثرات اور سب سے اہم اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ ہی ساتھ عیم صاحب نے مالک ادویہ جیسے اہم Topics پفصیلی بحث کی ہے نیز اشکال ادویہ واصطلاحات ادویہ کے ساتھ ساتھ تقریبا ہر ایک کے اخیر میں ان کے مخترع و موجد کے نام لکھ کر ایک نہایت نرالا نگر مفید انداز اختیار کر لیا ہے جو واقعی ضروری تھا۔ یقینا یہ ایک حوصلہ مند اور علمی اضافہ ہے۔ جس سے ناخوش نہ ہونا چاہئے بلکہ حکیم صاحب کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے یہ غور طلب مقام ہے کہ علیم صاحب نے کس طرح دواؤں کو قدیم و جدید تجربات کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے یہ قدیم اور جدید کا ایک انوکھا ھم ہے یہاں طیتی اجتہاد کا گمان ہوتا ہے اس کی پذیرائی ہونی چاہے جو بھی برادری میں عنقاء ہے۔
حکیم عبدالصمد خاں صاحب نے ان اہم موضوعات پر یقین بڑی ایمانداری، لکن اور محنت سے مواد فراہم کیا ہے نصابی نقطه نظر سے طلباء اور اساتذہ دونوں کے لئے یہ کتاب بہت ہی فائدہ مند ہے اور طباء میں ایرانی پیتھی کو مجھے اس کی حقیقت اور خوبیوں کو جانے اور مجھنے اور اپنی نانی پر کیس میں عملی طور پر شامل کرنے کے لئے یہ کتاب (مصباح الادوی) مواد فراہم کرتی ہے۔ کہیں کہیں تو اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو بھی علیم صاحب نے اس کتاب میں شامل کر کے علم میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو در حقیقت قابل ستائش ہے۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ جو جتنا زیاده.State for. W ard(صاف
گو ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ مخلص ہو تا ہے اور منافقت سے کوسوں دور رہتا ہے۔ میں بے جا تعریف کا قائل نہیں ہوں “مشک آن است که خود بو سید نہ کہ عطار بگوید اس کا فیصلہ آنیوالا وقت ہی کریگا بلکہ کر چکا ہے کہ اس کتاب ( مصباح الادویہ ) نے کتنی جلد قبول عام کی سند حاصل کر لی ہے ۔ یہ کتاب یقینا طبقی نصاب کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور میرے خیال میں یہ کتاب طلباء خاص طور پر پڑھنے والے طلباء اور ذی علم حضرات) کے لئے بہترین معاون ثابت ہو گی کتابچے لکھنا بہت آسان کام ہے لیکن کتاب لکھنا بہت ہی محنت اور دقت طلب اور اس کا شائع کرانا اور بھی مشکل ترین کام ہے۔ مہینوں اور دنوں میں کتاب نہیں تصنیف کیجاتی ہے اس کے لئے بہر حال ایک مدت در کار ہوتی ہے۔ کتاب کا لکھنا ایک مشکل ترین کام ہے لیکن اس پر نقطہ چینی کرنا، اغلاط کا مجموعہ اور نقص نکالنا بہت آسان ہے۔ جہاں تک تنقید براۓ اصلاح کا سوال ہے میری خواہش ہے کہ مبصرین (خوشامدی نہیں) اور ماہرین فن ( جن کی کمی نہیں ہے) اپنے اصلاحی خیالات و آراء سے حکیم صاحب کو مطلع کرتے رہیں تاکہ ان کو مد نظر رکھتے ہوۓ حکیم عبد الصمد صاحب نے دوسرے ایڈیشن میں مناسب اصلاح کر کے کتاب کو اور بھی مفید اور کار آمد بنادیا ہے۔اور خاص طور پر حکیم عبد الصمد خاں نے اپنی اس کتاب مصباح الادویہ کی اشاعت کے حقوق اعجاز پبلشنگ ہاؤس کو دیکر اس کتاب میں معیاری کاغذ اور کتاب کا کلر ٹائٹل اور جز بندی
کر کے طب پر ایک اور خدمت خلق کا کام کیا ہے۔ جس سے اس میں چار چاند لگ گئے۔ حکیم عبد الصمد خاں نے یونانی پیتھی کو ایک نئی زندگی اور ایک نئی دیشا بخشی۔ یقینا یہ کتاب علمی اور طبی برادری میں قبول عام کا درجہ حاصل کرے گی اور علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ نفع بخش بھی ثابت ہو گی بحیثیت ایک مؤلف وہ کامیاب رہے ہیں میری جانب سے دلی مبارکباد قبول فرمائیے۔
حکیم شمس الآفاق وزارت صحت حکومت ہند ، نئی دہلی کیم مئی ۲۰۰۰ء
Misbah ul adviya Hakeem Abdul Samad Khan