مطب لطیف
ڈاکٹر حکیم محمد طیب صاحب اعزازی پروفیسر و پرنسپل جمیل خان طبیہ کالج
آپ کے پیش نظر یہ مختصر سے کتاب شفاء الملک حکیم عبد اللطیف صاحب فلسفی مرحوم کے معمولات مطلب پر مشتمل ہے حکیم کمال الدین حسین صاحب ہمدانی ریڈ را قبل خان طبیہ کالج علی گڑھ نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں حکیم صاحب کے مطب میں کچھ نسخے محفو ظ کئے گئے اور کچھ ان کی بیاض میں سے نقل کئے تھے کمال الدین صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ اگر ان نسخوں کو ترتیب دے کہ شائع کر دیا جائے تو طبی حلقے میں حکیم صاحب مرحوم کی شخصیت کے پیش نظر مقبول بھی ہو نگے۔ مریض فیض یاب ہوں گے اور ہر شاگردوں کی ایک ملی رسی خدمت استاد محترم کی روح کو بطور نذرانہ عقیدت بھی دنیا میں نمایاں ہوگی چنانچہ یہ کام ہاتھ میں لے لیا گیا اور آج آپ کے زیر مطالعہ ہے ۔ تو ہوگی بات ہے کہ ستمبر کا مہینہ تھا اور میں علی گڑھے پہونچا کہ طبیہ کالج میں داخلہ لوں کا نچ کے انتہائی مشرقی کمرے کی طرف چیر اسی نے رہنمائی کی میں نے دیکھا ایک انتہائی سڈول جسم یونانی خط در حال فریج کٹ ڈاڑھی والے ایک صاحب شیروانی میں لمبوس تشریف رکھتے ہیں ۔ شیر والی بھی ایسی رفٹ کہ دل ہی دل میں رقصاں ہو گی کہ کس کے جسم پر پہونچی ہوں بقول حکیم صاحب اس زمانے میں شانوں اور تھا اس لئے کہ اتنی پیش ، با غلطیاں ملکہ حماقتیں کہ ہنسی آتی تھی اور جھنجھلاہٹ کلی …… میری ڈیوٹی سال سوم میں حکیم صاحب کے مطب میں لگی ۔ قدر ہے احساس بر تری اس زمانے میں سینٹر طلباء کو ہوا کرتا تھا ایں یہ بات اس کی کمر یہ ہا ہوں اگر میں اپنے ان دوستوں کا نام نہ لوں تو آپکا ہوگا۔ بہر حال حکیم صاحب نے نسخہ بولا۔ قشر بادام سوختہ، اسکے علاوہ اور نر بھی دوائیں تھیں ۔ یہ منجن کا نسخہ تھا جب نسخہ پیش ہوا تو تشرہ ماشہ بادام ۶ ماشہ سوختہ ۶ ماشہ کے دلچسپ اور ان کے ساتھ تھا اب طلبار کی کھنچائی کا وقت آگیا۔
مریض زیر لب مسکرا رہے ہیں اور ہم سب اپنے سر گر یہاں میں یا نڈوں میں لعاب خوب تیاری پر تھا واضح رہے کہ حکیم صاحب نے پہنی تھے داخل کر لینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ زمانہ آج جیسا نہ تھا کہ اتنی عریکا برس کی عمر تک ڈنڈ بیٹھک لگائے اور یہ سب ان کے جثہ سے نمایاں تھا شیر صاحب گفتگو شروع ہوئی اور موصوف نے صاف جواب دیدیا کہ داخلہ غلطیوں پر بھی اگر استاد نے کچھ کہا ایک تو اُسے جرات ہی نہیں ہوتی ہے اپنی عزت آبرو کے لئے نوکری کرتا رہتا ہے اگر کمی بھی واتو جو بھی نیتو سائے اب نہیں ہو سکتا ہے ۔ بہت دیر سے آئے لیکن میں بھی جما رہا ۔ پھر ارشاد آئے اس کی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں بھی طلباء کی اکثریت ایلو چیتی پر فدا تھی حالان که نه تو عید یا معالجات کورس میں داخل تھا نہ کوئی ڈاکٹر اس طرح کی با قاعدہ تعلیم دیتا تھا جیسا کہ ہتا کہ کل آئیے پھر حاضر ہوئے اور آخر کار مختلف مراحل جو امید و بیم کے مابین معلق سے رہے ، گذرتے ہوئے داخلہ ہو گیا۔
حکیم صاحب کے مطب میں طلباء کی ڈیوٹی لگا کرتی تھی حکیم آجکل اور نہ طلباء کی بنیادی تعلیم جدید رنگ کی ہوتی تھی مگر اس کے صاحب نسخہ بولتے تھے یہ لوگ لکھتے تھے اور پھر حکیم صاحب اسے ) با وجود کچھ رنگ آج سے زیادہ ہ گہرا تھا کچھ طلبا نے تو جی طور پہ ایک ڈاکٹر دیکھ کہ مریض کو دے دیتے تھے۔