معارف التوحید
مولانا عبدالحی استوری
تقریظ
استاذ العلماء، یادگار اسلاف، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان پر ساری مرا
نحمده ونصلي وتسلم على رسوله الكريم وعلى آله وأصحابه وأتباعه
أجمعين، أما بعد!
حضرات انبیائے کرام علیہ اسلام اور صحائف ربانی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سلسلہ رشد و ہدایت کار بانی انتظام تین بنیادی عقائد کے گرد گھومتا نظر آتا ہے : توحید، رسالت مشتمل ہے۔
اور معاد۔ یہی عقائد تعلیمات اسلامی میں اصل الاصول سمجھے گئے ہیں اور احکام واخلاق اسلامی کا پورانظام ان ہی تعین عقائد کی تحصیل و تحمیل پر منا اگر ان تین بنیادی عقائد میں تدبر کیا جائے تو رسالت و نبوت کا مقصد ، آخرت کی یاد اور اس کی تیاری کا حاصل معرفتِ رب اور خوشنودی باری تعالی قرار پاتا ہے۔ رسالت اور معاد پر ایمان بھی حق تعالٰی شانہ ہی کے احکام کی بجا آوری ہے ، بالفاظ دیگر وہی
واحد دیکتارب ہے جس نے حضرات انبیاء و مرسلین علیم نام کو مبعوث فرمایا۔ حضرات انبیاء عالی انا نے بھنگی ہوئی انسانیت کو توحید و معرفت الہی کے نور سے آشنا
کیا، اور آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا و ناراضی کے اصول و اسباب بتادیئے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو رسالت و نبوت اور آخرت پر اعتقاد کا سارا نظم فی الحقیقت “عقیدہ توحید ہی کی تکمیل کے اسباب و ذرائع ہیں، جس کی آخری اور حتمی صورت امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی تعلیم کردہ اور ہدایت فرمودہ “توحید” ہے، جو دنیا میں رائج نوع بہ نوع تصورات توحید کی تاریخ اور بارگاوالی میں مقبول و منظور ہے۔ اس جہت سے تو یہ حقیقت بلاشبہ بہت ہی عظیم ہے کہ وہ برگزیدہ ہستیاں جنہیں حق تعالی شانہ نے منتخب کر کے بندوں تک اپنے پیغام و کلام کو پہنچانے کے لیے مبعوث فرمایا، اس کا مرتبہ بہت ہی عظیم الشان ہے کہ وہ نیابت السی کے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں ، اور حق تعالی شانہ نے خود ان کی مدح و تعریف بیان کی ہے۔
حضرات انبیاء علی ان کی دعوت کا بنیادی مقدمہ ہی توحید پر اعتقاد اس کا عملی اظہار اور ذات حق جل مجدہ کی ذات، صفات اور علم میں شرکت و شراکت سے نفور تھا، لیکن شیطان کے دام میں آئے ہوئے لوگوں نے واسطے اور ذریعے کو مقصد اور نیابت کو اصل قرار دیتے ہوئے حضرات انبیاء مایہ ان ہی میں معاذ اللہ ، صفات الوہیت کا مشرکانہ عقیدہ وضع کر لیا۔ اس باطل عقیدے کی شناخت کے دو پہلو ہیں: ایک تو یہی کہ یہ حق تعالٰی شانہ کے ساتھ شرک ہے، جو بنص قرآنی (إن القركَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ) ہے۔ اور دوسرے یہ ان محسنین کے ساتھ بھی ظلم ہے جن کی محبت میں غلو کر کے انہیں مرتبہ الوہیت تک پہنچادیا، حالانکہ ان کی تعلیم و دعوت کا حاصل ہی درس توحید ” تھا۔ ہند و پاک میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت ہندومت سے اسلام کی طرف آئی تھی، اس لیے یہاں کے علاقائی اور سماجی حالات کے پیش نظر تو ہمات اور مشرکانہ عادات در سوم کو عوام کالانعام میں جلد پزیرائی حاصل ہو جاتی ہے۔ پھر اسی بر صغیر میں اہل سنت ہونے کے مدعی ایک طبقے نے بعض موہوم شرک اعتقاد اور بدعات و رسومات کو شرعی استناد مہیا کر کے اس مرض کو اور مہلک بنادیا ہے۔
لیکن الحمد للہ جس قدر باطل نے ان مسائل میں زور پکڑا اسی درجہ میں اہل حق نے بھی ہر اعتبار سے ان اعتقادی اور عملی گہرائیوں کے خلاف اپنی بھر پور قلمی ، لسانی اور عملی کاوشوں کو صرف کیا۔ یوں رد شرک و بدعات میں اہل حق کا تصنیف کردہ بہت بڑا اور وسیع ذخیرہ فراہم ہو گیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس سلسلے کی ایک کڑی مولانا عبد الحی استوری حفظہ اللہ کی ایک تالیف “معارف التوحید ” بھی ہے۔ مولانا موصوف نے اس کتاب میں بہت ہی اختصار اور جامعیت کے ساتھ عام فہم اور مدلل انداز میں عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں توحید اور شرک کے مسئلے پر قلم اٹھایا ہے۔ استواء علی العرش کا مسئلہ بھی مولانا موصوف نے احقر کے استاذ حضرت مولانا اور میں کاندھلوی بالٹے کی تصانیف کی روشنی میں بہت عمدگی سے سمودیا ہے۔ اللہ تعالی اس کتاب کو گھر ابان شرک کے لیے عقیدہ توحید اور اس کی عظمت کو سمجھنے اور شرک سے نفور کا ذریعہ بنادے اور یہ کتاب مؤلف اور قارئین کے لیے ذخیر ہ آخرت ہو۔ آمين يا رب العالمين.
سلیم اللہ خان
صفر المظفر، 1437ه، 19 نومبر، 2015 خادم جامعہ فاروقیہ کراچی
Maarif ut Tawheed By Maulana Abdul Hai Astori
Read Online
Download (40MB)
Link 1 Link 2