معارف الحواشی اردو شرح اصول الشاشی
عرض مؤلف
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے بندہ ناچیز سے اصول فقہ کی اہم ترین کتاب اصول الشاشی کی ایک عام فہم شرح معارف الحواشی لکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ محض اس کی عنایت اور اسی کا فضل ہے۔ اصول الشاشی پر اس سے قبل کئی شروحات لکھی جاچکی ہیں، لیکن ہر شرح کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے۔ بندہ کو عرصہ دراز سے اصول الشاشی پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ سب سے پہلے جامعہ امام ابو حنیفہ نے مکہ مسجد آدم جی نگر کراچی میں پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی اور کئی سال مسلسل پڑھانے کے بعد یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس کتاب کی ایک عام فہیم شرح پر اور مستی میں کے بعد یہ کہ کی عام نیم شرح لکھی جائے۔ بندہ نے یہ کتاب استاذ الاساتذہ حضرت مولانا شفیق الرحمن کشمیری یہ سے جامعہ فاروقیہ میں پڑھی تھی۔ ان کے پڑھانے کا ایک خاص انداز ہے، جو ان کا خاص امتیاز ہے۔ حضرت سبق کی تقطیع کر کے طویل سے طویل درس کو صرف چند باتوں میں سمیٹ لیتے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر بات کی وضاحت کرتے ہیں، جس سے متوسط ذہن کے طلبا بھی انتہائی آسانی سے سبق کو نہ صرف سمجھ لیتے ہیں، بلکہ ذہن نشین بھی کر لیتے ہیں۔ حضرت سے کئی کتابیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مشکل سے مشکل کتاب کو آسان سے آسان تر کر کے پڑھانے کا ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ بندہ ناچیز کو یہ انداز بہت زیادہ پسند آیا اور ان ہی کے انداز میں پڑھانے کی کوشش بھی کی اور شرح بھی انہی کے انداز میں لکھی ہے۔ حضرت تدریس میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں۔ فجزاہ اللہ احسن الجزا اس کتاب کی چند خصوصیات درجہ ذیل ہیں: عبارت مع مکمل اعراب
بعض اہم باتوں کا بطور تمہید ذکر
نفس کتاب حل کرنے کا اہتمام
دروس کی ترتیب سجائی، ششماہی اور سالانہ
سلیس اور عام فہم ترجمہ
. ہر درس چند باتوں پر تحمل
. ہر بحث کے بعد تمارین
مشکل اور مغلق مقامات کا عام فہم انداز میں حل اصول کو مثالوں میں منطبق کرنے کا اہتمام
قارئین سے گزارش ہے کہ کتاب پڑھنے کے دوران اگر کسی غلطی پر مطلع ہوں تو بندے کو آگاہ کر دیں اور بندے کو اپنی نصاب کے اعتبار سے خصوصی دعاؤں میں نہ بھولیں۔
مولوی عبدالحی استوری
فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
استاذ جامعہ انوار العلوم شاد باغ ملیر
امام و خطیب جامع مسجد فاطمہ غازی ٹاؤن فیز 1 ملیر
اصول فقہ کی اہمیت اور ضرورت
اللہ تعالی نے بنی آدم کو صرف اپنی عبادت اور بندگی کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے اور پھر انسانوں کی ہدایت کے لیے وقتاً فوقتاً انبیاء و رسول مبعوث فرماتا رہا، جو اللہ کے احکام بندوں تک پہنچاتے رہے اور آخر میں خاتم السیتین در حمیہ اللعالمین سی بی کام کو مبعوث فرمایا اور نبوت کے سلسلے کو ختم فرما کر قیامت تک کے لیے شریعت محمدیہ سلام کو باقی رکھا۔ اب رہتی دنیا تک دین محمد می مریدین ہی کے احکام پر عمل کیا جائے گا، کیونکہ اس کے علاوہ دیگر شریعتیں منسوخ ہو گئیں ہیں۔ دین محمدی مسی برای احکام کا مدار چار بنیادی ماخذ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ قرآن وسنت سے استدلال و استنباط ہر شخص کے بس میں نہیں ہے، کیونکہ انسان کے لکھے ہوئے کلام کو بھی سمجھنے کے لیے استاذ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص گھر بیٹھے کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بن سکتا، بلکہ ان فنون کو حاصل کرنے کے لیے اسکول و کالجز اور یونیورسٹی قائم کیے گیے ہیں، جہاں جاکر ان فنون کو استاذ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتاہے کہ کلام اللہ کو اخیر استاذ کے سیکھا جا سکتا ہے؟ سیکھنا تور کنار اسے درست پڑھنا بھی دشوار ہے۔ ایسے ہی حدیث رسول سی بلانے سے استدلال و استنباط احکام ہر شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، خاص طور پر جب کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ لوگوں نے بہت کی باتیں گڑھ کر معاذ اللہ ! سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کر دیں ہیں، جنہیں محدثین کی اصطلاح میں احادیث موضوعہ کہا جاتا ہے۔ لہذا احکام و مسائل کے استخراج کے لیے حدیث کی صحت و سقم، احوالی روات، ان کے صدق و کذب، ضبط و عدالت، ملازمت تقوی وغیرہ بہت سارے اوصاف نظر و ملاحظہ میں درکار ہوتے ہیں، تب کہیں جا کر معنی و مراد حدیث کو سمجھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے لیے کئی علوم وفنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ تقویٰ واخلاص، مجاہدہ و عبادت اور ریاضت درکار ہے تب کہیں جاکر انسان اس مقام تک پہنچتا ہے کہ حدیث سے استدلال کرے۔
نیز یہ بات یادر ہے کہ جس طرح قرآن و حدیث احکام شرع میں حجت ہیں اسی طرح اجماع و قیاس بھی احکام شریعہ میں حجت ہیں اور ان کا حجت ہونا بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ الناس …. الخ اس آیت میں اس امت کو بہتر امت کہا ہے اور فرمایا کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو پس اگر یہ امت برائی پر مجتمع ہوتی تو اسے بحیثیت مجموعی نیکی کا حکم دینے والی اور برائی سے منع کرنے والی است نہ کہا جاتا۔ معلوم ہوا کہ یہ امت کبھی برائی پر مجتمع نہ ہوگی اور جس پر یہ مجتمع ہو گی وہ اچھائی ہی اچھائی ہوگی۔ احادیث میں بھی متعدد مقامات پر اجماع کو حجت شرعی ہونے کی سند حاصل ہے۔ رسول اللہ یہ ہو نے فرمایا: عَلیكُم بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ اورای طرح فرمایا: لَمْ يَكُنِ اللهُ لِيَجْمَعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ اور بہت سی احادیث موجود ہیں جن سے اجتماع کا مثبت ہو نا معلوم ہوتا ہے۔
Maarif ul Hawashi Urdu Sharh Usool al Shashi
By Maulana Abdul Hai Astori