مقاصد شریعت
بسم الله الرحمن الرحيم
مقدمه
شریعت اسلامی انسان کے لئے اللہ تعالی کا بھیجا ہوا نظام حیات ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خالق اپنی مخلوق کی ضرورتوں اور صلاحیتوں سے جس قدر باخبر ہو سکتا ہے کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح انسان کے نفع و ضرر اور مصالح و مفاسد سے خدائے بصیر وخبیر جس قدر آگاہ ہے، خود انسان بھی نہیں۔ اس لئے شریعت صرف آخرت کی فلاح کا ذریعہ ہی نہیں ہے، بلکہ دنیا میں بھی انسان کے لئے راحت وفلاح کا باعث اور اس کے مفادات اور مصالح کا محافظ ہے۔ اسی لئے کتاب وسنت میں جو احکام آئے ہیں وہ کسی نہ کسی مصلحت اور مقصد پر مبنی ہیں ، شریعت کا کوئی حکم مقصدیت سے خالی اور مصلحت سے عاری نہیں ہوسکتا۔ کچھ مقاصد عمومی نوعیت کے ہیں، جو پوری شریعت اسلامی کے لئے اساس و بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اور غور کیجئے تو یہ انسانی زندگی کی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو جامع بھی ہیں، یعنی دین کی حفاظت، جان کی حفاظت نسل کی حفاظت ، مال اور عقل کی حفاظت۔ انسان اپنی زندگی میں جو بھی بہتر کام کرتا ہے، وہ اس دائرہ کے اندر ہوتا ہے، اسی لئے اسلامی قانون کے ماہرین نے ان مقاصد خمسہ کو شریعت کے احکام کی اصل قرار دیا ہے۔ پھر اگر غور کیا جائے تو ہر حکم کے ساتھ جزئی مقاصد اور مصالح بھی وابستہ ہیں۔ نماز خدا کی یاد کو تازہ رکھتی ہے ، روز و سے ضبط نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے، زکوۃ سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے، نکاح قلب و نگاہ کو عفیف و پاکدامن بناتا ہے، تجارت ضروریات زندگی کی فراہمی کا ذریعہ ہے، سود کی حرمت کا مقصد غریبوں کے استحصال کو روکنا ہے، زنا کی ممانعت کا مقصد معاشرہ کو بے حیائی، بدا طواری اور امراض خبیثہ سے محفوظ رکھنا ہے۔
مقاصد شریعت
یہی حال دوسرے احکام کا ہے، فقہاء نے اجتہاد و استنباط میں ان بنیادی اور جزوی مقاصد و مصالح کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔ پھر ان مقاصد کے دائرہ میں جو احکام آتے ہیں وہ ضرورت و اہمیت کے اعتبار سے یکساں درجہ کے حامل نہیں ہیں۔ بعض احکام وہ ہیں جو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے لازمی اور ضروری ہیں کہ ان کے بغیر اس مقصد کا حصول ہی ممکن نہیں ۔ بعض احکام اہمیت کے اعتبار سے ان سے کم درجہ کے ہیں، لیکن اگر ان کی اجازت نہ ہو تو انسان مشقت اور دشواری سے دوچار ہوسکتا ہے۔ کچھ امور اس سے بھی کم اہمیت کے حامل ہیں، اور کمال یا سہولت کے درجہ میں ہیں۔ پہلی قسم کے احکام کو ضرورت دوسری کو حاجت اور تیسری قسم کو تحسین“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دین، جان و مال انسل و عقل کی حفاظت احکام شریعت کے مقاصد ہیں، اور ضرورت و حاجت اور تحسین ان احکام کے مدارج ہیں۔
ان مقاصد و مدارج کا فہم تفقہ فی الدین کے لئے روح اور اساس کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کو پیش نظر ر کھے بغیر جو رائے قائم کی جائے گی وہ یا تو افراط پر مبنی ہوگی یا تفریط پر۔ اور یا اس میں اباحیت کا رنگ ہو گا یا حرج وشنگی کا۔ اور یہ دونوں ہی باتیں شریعت کے مزاج و مذاق اور اس کے مقصد و منشاء کے خلاف ہیں۔ اس لئے ہر دور میں جو نئے مسائل پیدا ہوں، ان پر غور کرنے ، ان کے بارے میں حکم شرعی کو جاننے اور مزاج شریعت سے ہم آہنگ رائے قائم کرنے کے لئے مقاصد احکام اور مدارج احکام پر عمیق نظر اور بصیرت ضروری ہے۔ کیونکہ فقہی جزئیات ہو سکتا ہے کہ ایک خاص عہد کے تقاضوں پر مبنی ہوں، لیکن شریعت کے مقاصد اور مصالح کی حیثیت دائمی اور ابدی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فقہاء مجتہدین نے ہمیشہ اپنی رائے قائم کرنے میں ان مقاصد کو پیش نظر رکھا ہے، لیکن اس سلسلہ میں اصول و قواعد کی تدوین پر نسبتا کم توجہ دی گئی ہے۔ ہاں حنفیہ کے یہاں استحسان اور مالکیہ کے یہاں مصالح مرسلہ جیسے فقہی مصادر کے ذیل میں اس موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اسلام کے اصول قانون کے ایک مستقل باب کی حیثیت سے مقاصد شریعت کی تشریح و تنقیح پر شایان شان توجہ نہ ہوسکی۔
بعد کے ادوار میں جب تیز رفتاری کے ساتھ نئے مسائل پیش آنے لگے تو اہل علم نے اس پہلو پر زیادہ توجہ دی ، اور خاص طور پر ابو اسحاق شاطبی اور علامہ طاہر بن عاشور نے مقاصد شریعت کو اصول فقہ کے ایک مستقل موضوع کی حیثیت اسے پیش کیا ، اور اس کے قواعد وضوابط کو بھی مرتب کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ دور میں تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے علماء نے اس موضوع کو اپنی علمی اور فکری کاوشوں کا خاص محور بنایا ہے، اور اس سلسلہ میں المعہد العالم للفكر الاسلامی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ معہد سے وابستہ اہل علم اور اصحاب قلم کی ان مفید کوششوں کا اعتراف اور اس کی تحسین ضرور کی جانی چاہئے ۔
علماء اور ارباب افتاء کے لئے یہ موضوع خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے، اور اسلامک فقہ اکیڈمی نے شروع سے اس بات کی کوشش کی ہے کہ جن اصولی مسائل سے نئے مسائل کاحل متعلق ہو، ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے ، اور اہل علم کے درمیان ان پر بحث و مناقشہ ہو۔ اسی پس منظر میں اکیڈمی نے ایک سمینار میں ” ضرورت وحاجت اور ایک میں عرف وعادت کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا، اور علماء نے ان گہرے اصولی موضوعات پر بصیرت افروز مقالات سپرد قلم کئے۔
چند ماہ پہلے المعہد العالمي للفكر الاسلامی امریکہ نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے پیشکش کی کہ مقاصد شریعت کے موضوع پر فقہ کے اساتذہ اور اس موضوع سے دیکھ ہی رکھنے والے نوجوان فضلاء کا ایک ورکشاپ رکھا جائے، چنانچہ دسمبر ۲۰۰۳ ء کی آخری تاریخوں میں ہمدرد سمینار ہال دہلی میں یہ اہم تربیتی اجتماع منعقد ہوا، اور اس نے حاضرین میں مطالعہ وتحقیق کی ایک نئی امنگ اور غور و فکر کی نئی جہت پیدا کی۔ اکیڈمی نے مناسب سمجھا کہ فلیبلغ الشاہد الغائب“ کے تحت فکر و نظر کی یہ سوغات ان اصحاب ذوق تک بھی پہنچائی جائے جو اس مجلس میں شریک نہیں ہو سکے، اور اس طرح اس کی افادیت کے دائرہ کو زیادہ وسیع کیا جائے۔ چنانچہ اکیڈمی کی خواہش پر شعبہ علمی کے رفقاء نے بڑی محنت اور خوش سلیقگی کے ساتھ اس گلدستہ کو ترتیب دیا ہے۔ اجتماع میں متعدد عربی محاضرات اور کچھ اردو خطابات ہوئے تھے۔ مولانا صفدر زبیر ندوی اور مولانا محمد امتیاز قاسمی نے بالترتیب عربی اور اردو محاضرات کو بڑے اہتمام کے ساتھ ٹیپ کی مدد سے نقل کیا۔ پھر مولانا محمد فہیم اختر ندوی اور مولا نا ہشام الحق ندوی نے انہیں اردو میں منتقل کیا ۔ نیز خطابات کے تقریری اسلوب کو تحریری اسلوب کا قالب عطا کیا گیا۔
اس مجموعہ کی تیاری میں شعبہ علمی کے رفقاء نے اکیڈمی کے سکریٹری برائے علمی امور حضرت مولانا حقیق احمد صاحب سے اور اس حقیر سے حسب ضرورت مشورے بھی کئے ۔ اس طرح یہ مجموعہ کتابی شکل میں اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس مجموعہ میں جہاں مقاصد شریعت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے، وہیں اس موضوع پر ہونے والی خدمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، اور اس کی عملی تطبیق پر بھی مفید تحریریں آگئی ہیں۔ نیز مقاصد شریعت کے موضوع پر لکھی گئی اہم کتابوں کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح اس موضوع پر اردو زبان میں غالباً پہلی بار ایک جامع تحریر سامنے آرہی ہے۔ امید ہے کہ اس ورکشاپ میں پیش کی جانے والی تحریروں اور محاضرات کا یہ مجموعہ شوق کے ہاتھوں لیا جائے گا اور مقاصد شریعت کی اہمیت کو واضح کرنے میں مفید و مؤثر ثابت ہوگا ۔والله من وراء القصد وهو الموفق وهو المستعان
خالد سیف اللہ رحمانی
۶ ربیع الاول ۱۴۲۵ھ
۲۷ اپریل ۲۰۰۴ء