مولانا محب الحق نقوش و تاثرات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
افتتاحیه
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء وأشرف المرسلين، وعلى آله وصحابته أجمعين. وبعد والد گرامی حضرت مولانا محب الحق رحمہ اللہ کی ۶۵ سالہ حیات مستعار تدریس و تالیف تحقیق و ترتیب، اصلاح و تربیت، دعوت و تبلیغ اور عبادت وریاضت سے معمور تھی ، وہ اپنے مشن اور مقصد میں ہمہ تن مصروف تھے، اپنے استاد گرامی قدر مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کے علوم و معارف کی جمع و ترتیب، تدوین و تالیف اور نشر واشاعت، ان کی زندگی کے اہم مقاصد میں سے ایک تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحیتیں اور زندگی کے شب و روز وقف کر دیے، اخیر کے سالوں میں والد صاحب کے یہاں تصنیف و تالیف کا عمل تیزی سے رواں دواں تھا، تقریبا ہر سال کوئی نہ کوئی کتاب طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود کی زینت بن جاتی ؛ ذاتی طور پر مجھے خود اس پر مسرت آمیز تعجب ہوتا، چوں کہ ظاہری احوال کے پیش نظر دل میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ان کی زندگی اپنے آخری مراحل میں ہے؛ لہذا ازل سے طے شدہ ضروری کاموں کی تکمیل کے لیے غیبی منصوبہ بندی کے تحت تیز گامی اور تیز رفتاری کی یہ ہمیز لگائی گئی ہے۔
والد محترم کی صحت اچھی تھی کسی مہلک اور خطر ناک بیماری کے شکار نہیں تھے، لہذا دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف کا محبوب مشغلہ اپنی سابقہ رفتار کے ساتھ جاری وساری تھا، اپنے استاد مکرم مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کی ایک جامع مفصل اور مستند سوانح حیات تصنیف فرمارہے تھے کہ اچانک ۱۵ شوال المکرم ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۳ / اگست ۲۰۱۳ء کی رات کو ان پر دل کا شدید حملہ ہوا اور ایک ہفتہ کے اندر ہی اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون! حضرت مولانا محب الحق نے اپنے اخلاق واوصاف، معاملات و معاشرت، عبادت وریاضت، خیر خواہی و ہمدردی، اطاعت شعاری و وفاداری، اصلاح و تربیت اور تصنیف و تالیف کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی گزاری ، چناں چہ عزم و ہمت ، صبر و شکر، قناعت و خود داری بیم جد وجہد مسلسل کام کی دھن اور لگن، عبادت وریاضت، تعلیم پیہم و تربیت، تحقیق و تصنیف، اخلاص وبے نمائی، اعلی اخلاق اور اپنے استاذ کے تئیں بے مثال اطاعت شعاری و وفاداری ان کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ اور ان کی قابل رشک زندگی ہمارے لیے مینارہ نور اور نئی نسل کے لیے سرمہ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہے ؛ اسی لیے ہم نے مصمم عزم کیا کہ آپ کی روشن حیات و خدمات کو کتاب کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے ؛ تا کہ ہم اپنی زندگی کی مختلف راہوں میں اس نورانی مشعل سے روشنی اور رہنمائی حاصل کر سکیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی درجہ میں ان کے جیسی با مقصد زندگی گزارنے کی کوشش کر سکیں؛ کیوں کہ عظیم انسانوں کے پر عظمت کا رنامے پڑھ کر فطری
طور پر دلوں میں ان جیسا بنے اور کچھ کر گزرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا والد گرامی کی وفات کے بعد سے ہی ان کی سوانح حیات کی تالیف کا عمل شروع کر دیا گیا، لیکن یہ کام کم از کم مجھ جیسے بے مایہ کے لیے آسان نہیں تھا؛ کیوں کہ اس کتاب کو ایک سوانحی مرقعہ بنانے کے لیے ہم نے درج ذیل امور پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی
اپنی سی کوشش کی ہے: ۱) وطنی اور خاندانی تفصیلات ، جہاں صاحب سوانح کی نشو و نما ہوئی اور جوان کی زندگی میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔
۲) تعلیم و تربیت کے لحاظ سے زندگی کے مختلف ادوار اور علمی مراکز ، جہاں
صاحب سوانح کی شخصیت سازی ہوئی۔
۳) اساتذہ اور ان کے احوال، جو صاحب سوانح کی شخصیت سازی میں معمار
کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۴) مختلف علمی عملی اور دعوتی خدمات اور کارنامے، جن سے صاحب سوانح کی
گونا گوں صلاحیتوں کا ظہور ہوا۔
۵) تصنیفات و تالیفات کا تفصیلی تعارف، جو صاحب سوانح کی فنی مہارت کی
معاصرین اور ان کے تاثرات، جن میں سے ہر ایک اپنے مخصوص زاویہ نگاہ
سے صاحب سوانح کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔
ے مشاہیر جن سے خصوصی تعلق رہا اور جنھوں نے صاحب سوانح کی خدمات کو
تحسین کی نگاہوں سے دیکھا۔
ظاہر ہے کہ ان تمام عناصر پر مواد حاصل کرنا اور انہیں مرتب کر کے کتابی شکل وصورت میں ڈھالنا محنت طلب ، دشوار گزار ، صبر آزما اور نازک کام ہے، جو ایک دو دن میں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ میرے لیے یہ تنکا تنکا جمع کر کے آشیانہ بنانے جیسا عمل تھا؛ چناں چہ والد صاحب کے کتب خانہ کے پورے ذخیرہ کو کھنگالنا، متعلقہ چیزوں کو جمع کرنا ، ڈائریوں ، کاغذات، مسودات اور خطوط کے مطالعہ اور انتخاب میں دماغ سوزی سے کام لینا، والد صاحب کے ہم عصر اصحاب علم و قلم ، خاندان کے بزرگوں اور کتاب میں ذکر کردہ شخصیات کے احوال زندگی کے لیے ان کے وارثین اور دیگر علماء سے بار بار رابطہ کرنا اور تاریخی مواد کے لیے متعلقہ کتابوں کی حصول یابی کے لیے دوڑ دھوپ کرنا وغیر غیرہ، یہ تمام ایسے مراحل ہیں، جن میں بڑے صبر، ہمت اور پیہم طلب و جستجو کی ضرورت تھی ، صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی توفیق سے ان مراحل کو طے کرنے کی قوت اور سعادت حاصل ہوئی۔
پہلے ارادہ تھا کہ والد صاحب کے مقالات و مضامین کو بھی اسی کتاب میں شامل کیا جائے ، پھر طوالت کے پیش نظر اسے موقوف کرنا پڑا؟ تاہم اس کتاب میں جتنی شخصیات کے تذکرے اور سوانحی خاکے ہیں، بجز چند کے سب کے سب والد صاحب کے تحریر کردہ ہیں، انہیں من وعن شامل کتاب کیا گیا ہے؛ تاکہ ان کے ذریعہ صاحب سوانح کا اسلوب تحریر اور ذوق تحقیق قارئین کے سامنے آسکے۔
بہر حال اللہ تعالی کی مشیت اور اس کی توفیق سے یہ سوانح ترتیب و تالیف کے قالب میں ڈھل چکی ہے؛ لہذا تعریف کے جملہ کلمات اور شکر کی تمام ادا ئیں اس باری عز اسمہ کی خدمت اقدس میں پیش ہیں، جس نے اس ذرہ بے مقدار کو ہمت، قوت اور توفیق عطا فرمائی اور اس گراں قدر سوانح کی تالیف کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔
فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . وَلَهُ
الْكِبْرِيَاء فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ . (سورة
الجاثية: ٣٧،٣٦)
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس میں عاجزانہ دعا ہے کہ اس ادنی کاوش اور حقیر کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے، قارئین کو اس سے دینی نفع پہنچائے ، ہمارے والدین، جملہ عزیز واقارب اور مجھ سیاہ کار کے لیے اسے ذخیر ہ آخرت بنائے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ. (سورة البقرة: ۱۲۷)
اس موقع پر استاذ گرامی قدر نمونہ سلف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی، حضرت مولانا سید محمد سلمان منصور پوری، حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، ان کے خادم خاص مولانا ارشد قاسمی کاندھلوی، حضرت مولانا سالم جامعی ، مولانا ضیاء الحق خیر آبادی، جناب تکلیف الرحمن سنبھلی ، ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی امروہی ، ڈاکٹر جنید اکرم فاروقی امروہی ، مفتی ریاست علی رام پوری، مفتی امانت علی قاسمی، مفتی نوشاد نوری، مولانا غفران اللہ مفتی جو ہر علی قاسمی، مولانا اسد پر وہی اور دیگر صاحبان علم و قلم کا احقر دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہے، ان حضرات نے بے پناہ مصروفیات کے باوجود احقر کی درخواست پر اپنی گراں قدر تحریروں سے نوازا۔ فجزاهم
الله خير ما يجزى عباده الصالحين من الكرماء والنبلاء.
Maulana Mohib ul Haq Nuqoosh wa Tasurat
By Mufti Imdad ul Haq Bakhtiyar