میڈیا اسلام اور ہم
ڈاکٹر سید محمد انوار
میڈیا ہماری زندگی کی وہ مجازی (Virtual) حقیت ہے جو کہ ہماری زندگی پر اس دور میں سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے یہ اثر مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ معلومات اور خبروں کی فراوانی ان تک بآسانی رسائی، آپس کے تیز رفتار رابطے، یہ سب ایسے پہلو ہیں کہ ان کی افادیت سے انکار کیا جاسکتا ہے نہ اس سے مفر ممکن ہے۔ میڈ یا ہماری زندگیوں کا ایک جز ولا نیفک بن چکا ہے۔
میڈیا اسلام اور ہم
میڈیا سے متعلق ایک اہم بات کی وضاحت ابتدا میں کر دینی چاہیے اور وہ یہ کہ میڈیا کو ہر صورت میں آزاد ہونا چاہیے۔ اگر میڈیا آزاد نہیں ہے تو یوں سمجھیں کہ اس کی روح نہیں ہے۔ میڈیا کی آزادی ہی اس کی خوبصورتی اور اسکی طاقت ہے اگر آزادی نہیں تو اس کی افادیت بھی کم ہو جاتی ہے بلکہ کلی طور پر زائل بھی ہوسکتی ہے۔ میڈیا کی آزادی ہی ہم کو اس میں موجود معلومات اور خبروں سے اتفاق یا اختلاف کا موقع دیتی ہے۔ ایسا ہی ایک حق اختلاف اس کتاب کی تحریر کا باعث ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ میڈیا میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ ہمارے مزاج یا ہمارے عقائد ونظریات سے متصادم ہوتی ہیں۔ ہمارے سیاسی نظریات کے خلاف ہوتی ہیں، ہمارے معاشی مفادات سے متصادم ہوتی ہیں، ہمارے معاشرتی نظام سے متصادم ہو سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس تصنیف کا ایک پہلو ان نظریات کو بیان کرنا ہے جو کہ میڈیا میں ہمارے دین اسلام کے خلاف نشر ہورہے ہیں۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے ایسی باتیں کرنا مفید ہوں گی اور کچھ کو ان سے تکلیف ہوگی اور جن کو تکلیف ہوگی ان کو ان باتوں سے اختلاف کا حق ہے اور ان کا تدارک کرنا ان کا فریضہ ہے۔ وہ باتیں جن کو بطور مسلمان سن کر، دیکھ کر یا پڑھ کر دکھ ہوتا ہے اور دل گڑھتا ہے۔ غصہ آتا ہے۔ بے بسی کا احساس ہوتا ہے کبھی اسلام کے متعلق اپنے ہی لوگوں کے تبصرے سن کر ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے کبھی دشمنان اسلام کی کلی سازش نظر آرہی ہوتی ہے لیکن بے بسی کے سبب اپنا خون کھولا نے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ کیفیت ہے جو اس کتاب کی تصنیف کا بنیادی محرک ہے، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بھی مذکورہ بالا بیان کردہ ذہنی اور جذباتی کیفیت سے گزرتے ہوں سید ان کے لئے لکھی گئی ہے۔ میڈیا ایک اتنی بڑی اور طاقتور حقیقت ہے کہ اس کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا کسی کے اختیار میں نہیں۔ میڈیا کی دنیا ایک وسیع سمندر ہے جس پر قابو پانا و ناممکن ہے لیکن ایسی کوشش کرنا بھی حماقت محض ہے۔ اس سمندر میں زندہ رہنے کے لئے اور اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے اولاً یہ لازمی ہے کہ ہمیں اس کی وسعت اور گہرائی کا صیح اندازہ ہوں۔ ہم اس کے ممکنہ خطرات سے واقف ہوں۔ کہاں کہاں کیسی کیسی بلائیں اس میں پوشیدہ ہیں ان کا ہمیں اور اک ہو۔ اس میں چلنے کے راستے اور اپنی سمت درست رکھنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو۔ اس کے مدوجزر پر ہماری نظر ہو۔ اس میں چلنے والی ہواؤں کی ہمیں سمجھے ہو۔ ان کے مضر اثرات سے بچنے کے طریقے ہمیں آتے ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ ان کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے یہ سمندر اس کی موجیں اس کی ہوائیں اور طوفان ہماری مرضی کے طابع ہوجائیں گے یہ خیال عبث ہے البتہ ہم اپنی کشتی س صورت میں منظم اور سالم کیسے رکھ سکتے ہیں اور سے حالات کے تند و تیز طوفان سے نکال کر کنارے پر کیسے لے جاسکتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب جب ہم سمندر کی اصل حقیقت اور ان قوانین طبیعات سے کما حقہ آگاہ ہوں جو اس بحر بے کراں میں کارفرما ہیں اور اس کتاب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ میڈیا کے سمندر میں جو خطرات موجود ہیں انہیں صحیح طور پر سمجھا جائے اور یہ جانا جائے کہ آیا یہ خطرات کوئی نئے خطرات ہیں جن سے ہم خشکی کے سفر کے دوران دو چار نہیں ہوتے یا وہی پرانے خطرات ہیں لیکن نئی شکل وصورت اور پیراہن میں ہمارے سامنے آئے ہیں