کارو کاری یا طور طورہ

کاروکاری
کارو کاری یا طور طورہ سید عبدالوہاب شیرازی Karo kari ya Tor Tora
کارو کاری یا طور طورہ سید عبدالوہاب شیرازی Karo kari ya Tor Tora

Read Online

Download

کارو کاری یا طور طورہ

(سید عبدالوہاب شیرازی)

ہرسال دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔چنانچہ جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بن جاتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم پاکستان،بھارت سمیت عرب ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح غیر مسلم ممالک، یورپی ممالک اور امریکا میں بھی ہر سال ہزاروں عورتوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال تین ہزار عورتیں گرل فرینڈ،بوائے فرینڈ کے چکر میں قتل ہوجاتی ہیں۔پاکستان کے چاروں صوبوں یہ رسم پائی جاتی ہے۔ یہاں کے قبائل کے خیال میں اس طرح کا قتل نہ صرف جائز بلکہ اچھا عمل سمجھا جاتا ہے۔

سیاہ کاری ،کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے۔مذکورہ نام ایک دوسرے کے مترادف ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جانےوالی زبانوں کے مطابق بنائے گئے ہیں۔بلوچستان میں اسے ”سیاہ کاری“ کہا جاتاہے جس کا معنی بدکاری ،گنہگار ہے۔ سندھ میں اسے ”کاروکاری“ کہا جاتا ہے کاروکامطلب سیاہ مرد اور کاری کا مطلب سیاہ عورت ہے۔ پنجاب میں” کالا کالی“ اور خیبرپختون خواہ میں ”طور طورہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اوراس کے مرتکب ٹھہرائے گئے افراد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔سیاہ اس شخص کو کہتے ہیں جس پر نکا ح کے بغیر جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتے ہیں۔اور ایسے مجرم کو قتل کرنے کے عمل” کو قتلِ غیرت “ اور انگریزی میں ”Honour Killings“کہتے ہیں۔کاروکاری اور قتل غیرت میں معمولی سا فرق بھی ہے۔ وہ یہ کہ کاروکاری میں قبیلے یا خاندان کے بڑے جمع ہوکر ایک جرگے کی صورت میں قتل کا فیصلہ سناتے ہیں اور پھر قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ قتل غیرت میں خاندان کا کوئی فرد از خود غیرت میں آکر بغیر کسی جرگے کے قتل کردیتا ہے۔

یہاں یہ نکتہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر جب بھی کوئی قتل ہوتا ہے تو الیکٹرانک میڈیا اور اس کے صحافی قتل کے فریق قبائلیوں،ودیڑوں،اور اس رسم کو اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کہنے والوں کو اپنے پروگرام میں مدعو نہیں کرتے بلکہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے فورا اپنے پروگرام میں کسی ایسے مولوی کو بلا لیا جاتا ہے، جس بیچارے کو شاید کاروکاری کا معنی بھی نہ آتا ہو۔ سوچنے کی بات ہے قتل بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں قبائلی جرگے کے حکم پر ہوا اور میڈیا کے کرائم رپورٹر تفتیش راولپنڈی کے کسی محلے کے امام مسجد سے کررہے ہوتے ہیں۔ بات تو تب بنے کہ یہ رپورٹ اور اینکر ذرا بلوچستان کے اس قبیلے میں جاکر ان سے پوچھیں کہ قتل کیوں کیا؟تمہارے پاس قتل کا کیا جواز ہے؟پھر پتا چلے کہ اینکر میں کتنا دم خم ہے۔ ساری بھڑاس بیچارے بیوقوف مولوی پر نکال لی جاتی ہے جو ٹی وی پر آنے کے شوق میں ایسے پروگراموں میں پہنچ جاتا ہے۔

اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام ہے۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی ہے، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے ہیں اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا گیا۔ عورتوں کے قتل کے جتنے واقعات ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر قتل، قتلِ غیرت ہی ہوکبھی خاندانی دشمنی،تقسیم میراث وغیرہ دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں موجود مغرب کی پروردہ ”این جی اوز“ ہر قتل کو قتل غیرت قرار دینے پر اصرار کرتی ہیں، اور پھر اس سانحہ کو خوب بیچا جاتا اور اس کی آڑ میں مغرب سے فنڈ وصول کیے جاتے ہیں۔پھر ہمارے معاشرے میں جتنے قتل ہوتے ہیں ان کا اگر موازنہ کیا جائے تو مردوں کے قتل کے مقابلے میں عورتوں کا قتل نصف سے بھی کم ہے۔مرد بھی آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے قتل کو قتل غیرت شمار نہیں کیا جاتا، چونکہ مردوں کے قتل پر فنڈ نہیں ملتے اس لئے مردوں کے قتل کو کوئی اور رُخ دے دیا جاتا ہے۔ مثلا مردوں کی اچھی خاصی تعداد اس لئے قتل ہوتی ہے کہ انہوں نے کسی عورت یا لڑکی کو چھڑا تھا اور پھر عورت کے رشتہ دار نے غیرت میں آکر اس چھیڑنے والے لڑکے کو قتل کردیا۔ایسے قتل آئے روز ہوتے رہتے ہیں، خصوصا قبائلی علاقوں میں تو 80فیصد مرد ہی غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں لیکن این جی اوز انہیں قتل غیرت نہیں شمار کرتیں۔ایسے کتنے ہی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ قتل ہونے والا مرد کسی خاندانی یا ذاتی دشمنی میں قتل کیا گیا لیکن اصل بات پر پردہ ڈالنے کے لئے قاتل نے اسی لمحے اپنی بیوہ بہن جو بھائی کے گھر میں رہتی تھی کو قتل کرکے اس کی لاش مقتول مرد کی لاش کے ساتھ پھینک دی۔

ابھی ایک ماہ قبل مانسہرہ میں میرے گاوں کے ساتھ والے ایک گاوں میں شادی کے تین چار دن بعد شوہر اور اس کی والدہ نے نئی نویلی دلہن کو صرف چار پانچ ہزار روپے کے چکر میں رات کے وقت گلا دبا کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش قریب فصلوں میں پھینک کر پاس کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ دیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ یہاں اپنے آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی۔لیکن گرفتاری کے فورا بعد شوہر نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت جامع فرمان احادیث میں موجود ہے:جیسا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی پر زنا کا الزام اس وقت ثابت ہوتا ہے جب تک چار ایسے گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھا گواہی نہ دے دیں۔چنانچہ اس اسلامی حکم کے تناظر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یارسول اللہ اگر ہم اپنی بیوی سے کسی کو زنا کرتے دیکھیں تو کیا ایسے موقع پر ہم گواہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں؟تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تعجب کرتے ہو سعد کی غیرت پر، مگر میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔یعنی جس اللہ نے یہ قانون بنایا ہے وہ زیادہ غیرت مند ہے لہٰذا اب گواہی کے بغیر کسی پر زنا کو ثابت کردینا اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ غیرت مند بنانے کے مترادف ہے۔ غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جذبات آکر انسانی جان ضائع کردے۔

غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کے لئے چند ضروری اقدامات کرلیے جائیں تو یہ قبیح رسم ختم ہوسکتی ہے۔

(۱) اولاد کے ولی اپنی اولاد پر ہمیشہ نظر رکھیں کیونکہ قتل تو ایک لمحے میں اچانک ہوجاتا ہے لیکن قتل کا سبب یعنی زنا تو اچانک نہیں ہوتا اس کے پیچھے طویل دوستیاں آشنایاں،بے حجابی،مخلوط ماحول یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں، جب ان چیزوں کا سدد باب نہیں کیا جاتا تو پھر نتیجہ قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔

(۲) پاکستان کے قوانین میں بھی کئی سقم پائے جاتے ہیں جو اس قبیح رسم کے ختم ہونے میں رکاوٹ ہیں، مثلا ایسا قتل ، قتلِ عمد نہیں سمجھا جاتا بلکہ قتلِ خطا شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے قتل کا مقدمہ خاندان ہی کے کسی فرد کی مدعیت میں درج کیا جاتا ہے اور پھر وہی مدعی(مثلا باپ) مقتول (مثلا بیٹی)کا وارث ہونے کے ناطے قاتل(مثلا بیٹے) کو معاف کردیتا ہے۔ اگر ایسا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے تو معافی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے جو اس رسم کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔

(۳)کاروکاری کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قبائلی معاشرے میںآج 2016 میں بھی عورت کو اپنی ملکیت اور جائیداد سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس کے خلاف شعور کا اجاگر کیا جائے۔

(۴) یہ شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی شخص خود قانون کو نافذ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.