ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنیوں کا مکروہ جال گولڈن کی انٹرنیشنل ، گولڈ مائنز انٹرنیشنل ، ٹائنز، گرئین ورلڈ جیسی کمپنیوں کے فراڈ سے پردہ اٹھاتی تحریر۔ برہاں بصری جسے پاکستان میں ٹائنز کا باپ کہا جاتا ہے پاکستان کے متوسط طبقے کے لاکھوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ اگر زیادہ دور نہ جائیں تو یہ وہی برہان بصری ہے جو ہماری بھولی بھالی عوام کو گولڈن کی انٹرنیشنل (ٹائنز جیسی فراڈ کمپنی، جواب بھاگ چکی ہے) نامی اسکیم میں بیوقوف بنا رہا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے اس کی دعوت پر گولڈن کی جوائن کی تھی۔ پھر ایک دن یہ کمپنی ختم ہو گئی اور لوگوں کا کروڑوں روپیہ ضائع ہو گیا۔ اور اب ایک بار پھر جو کبھی گولڈن کی کے ڈبل بادشاہ تھے آج ٹائنز کے سرمائی جادو گر بن گئے۔ ہماری بلکھڑ عوام کو اپنی اس نئی فراڈ کمپنی کے سہانے خواب دکھا نے شروع کئے۔ یوٹیوب پر موجود اپنے انٹرویو میں برہان بصری اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں گولڈن کی میں تھا اور پھر میں نے چھوڑ دیا۔ کیا برہان بصری سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ تم نے تو ہزاروں لگا کر لاکھوں کما لیے اور تمہارے نیچے لوگوں کا کیا بنا ہو گا جو ادھار اٹھا کر یا اپنی بیوی کا زیور بیچ کر تمہاری فراڈ کمپنی کے ممبر بنے تھے؟
اس انٹرویو میں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم لوگ ان کو ٹائنز میں لا رہے ہیں ۔ حالانکہ برہان بصری کے یہ الفاظ ہوتے چائیے تھے کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہم ٹاینز میں پھر سے ان لوگوں کی دولت لوٹ رہے ہیں اور کبھی گولڈن کی تو کبھی ٹائنز کے نام پر پاکستانی عوام کی دولت لوٹتے رہیں گے۔
اس کے بعد پاکستان میں اس جیسی فراڈ کمپنیوں میں دوسرا بڑا نام کامران فرحت کا ہے جس نے گولڈ ماینز انٹرنیشنل نامی کمپنی کے ذریعے حال ہی میں پاکستانی عوام کے کروڑوں روپے لوٹے اور آج GMIپاکستان میں مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔
اگر ہم نیٹ ورک مارکیٹنگ کی پاکستان میں تاریخ دیکھیں تو اس طرح کی ایک اسکیم 1980کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ جس کے تحت کوئی بھی شخص ایک سو روپے ادا کر کے ممبر بن جاتا تھا اور اسکیم کی ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد یہ ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد یہ ممبر پھر مذید ممبر لانے کا اہل ہو جاتا تھا۔ ہر ممبر لا نے پر سو روپے میں بیس یا پچیس روپے کمیشن ملتا تھا۔ باقی پیسے سکیم چلانے والی کمپنی کو ملتا تھا۔
چند کمپنیاں جن میں برناس، گولڈن کی انٹرنیشنل، گولڈ مائنز انٹرنیشنل اور ٹائنز جیسی مشہور ہوئیں۔ برناس، گولڈن مائنز کی انٹرنشنل اب بند ہو دچکی ہے جبکہ ٹائنز ابھی آخری سانسوں پر ہے اور اب انشاء اللہ بھاگنے والی ہی ہے۔ البتہ اس کی جگہ لینے کے لئے ایک نئی کمپنی گرین ورلڈ شروع ہو چکی ہے۔
ان کمپنیوں کے لٹریچر اور لیکچروں سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں جائز ذرائع سے کمانے کے طریقے سے بہت کم ہیں اور وہ صرف دو ہیں۔ 1ملازمت 2کاروبار
ملازمت میں اہلیت، تعلیم، تجربہ اور وقت کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ تنخواہ ابھی محدودسی مقرر ہوتی ہے۔ چاہے محنت کم ہو زیادہ۔ کاروبار میں سرمایہ ، تجربہ اور وقت تو بیش بہادینا ضروری ہوتاہے۔ جبکہ اس سسٹم میں نہ زیادہ تعلیم، سرمایہ اور اہلیت کی اور نہ ہی زیادہ وقت دینا پڑتا ہے، بس معمولی وقت دے کر آپ اپنے سب خواب پورے کر سکتے ہیں۔ اس میں نوکری، کاروبارکی طرح کوئی رسک بھی نہیں۔ کیونکہ کمپنی میں کوئی رسک بھی نہیں کیونکہ کمپنی میں کوئی کسی کا باس نہیں، سپر وائزر ، مینیجر، ڈائریکٹر وغیرہ کے عہدے محض اعزازی سے ہیں۔ ماضی میں ہمارے سامنے گولڈن کی والوں کی مثا ل ہے جس میں گولڈن کی والوں نے اخبارات میں اپنے ایک اعزازی ڈائریکٹر برھان بصری کو کمپنی کے مفاد کے منافی سرگرمیوں کی بنا پر برطرف کرنے کا اشتہار دیا۔
ان فراڈ کمپنیوں کو واحد مقصد آسانی سے کروڑوں ڈالر کمانے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ یہ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کئی گنا مہنگی فروخت ککرتی ہیں اگر یہ مارکیٹنگ کا عام مروجہ اور شفاف طریقہ فروخت اختیار کرتے تو زیادہ دولت اکٹھی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لئے ان سودی اور قماری سکیموں نے ملٹی لیول مارکیٹنگ کا طریقہ اپنایا مثلاً ٹائنز کمپنی کی پروڈکٹ میں ایک ٹوتھ پیسٹ کی قیمت 350روپے ہے جبکہ مارکیٹ میں ایک اچھی ٹوتھ پیسٹ 50سے 60روپے دستیاب ہے۔ کیلشیم کی ڈبی کی قیمت 2100روپے ہے جبکہ ماکیٹ میں بہترین کیلشم کی دس گولیاں اور دس ساشے 100روپے سے 120 میںستیاب ہیں۔ GMIکمپنی میں گھڑی کی قیمت 8000روپے تھی۔ ایسی گولڈ پلیٹنڈ گھڑی مارکیٹ میں 2000روپے میں خریدی جا سکتی ہے۔ اسی طرح گولڈن کی ایک کین یا کٹر کی قیمت 1300روپے تھی۔ جو ممبرز کے لئے فضول اور کسی کام کا نہیں۔ بے بی لوشن 750روپے تھا، مارکیٹ میں بہترین بے بی لوشن 200روپے تک مل جاتا ہے۔ گولڈن کی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ ممبران کو جو چیز خریدنے کی رغبت دی جاتی تھی، وہ ایک فوڈ سپلیمنٹ تھا جسے کینسر، شوگر، ہیپاٹائٹس سمیت بہت سی بیماریوں کا جادوئی علاج کیا جاتا تھا۔ اس کی قیمت 19000روپے تھی۔ یہ تقریباً انر جائل کے ڈبے سے کچھ سائز بڑے میں ایک سفوف سا ہوتا تھا۔ اب انر جائز بھی انہی جیسے مہنگے فوڈ سپلیمنٹ بیج رہی ہے۔ ان کمپنیوں کے مطابق ان کی سب اشیاء بڑے خاص سائنسی طریقوں سے تیار کی جاتی ہے۔ اور بہت سی اشیاء نا قابل علاج بیماریوں کا علاج بھی ہیں لیکن کمپنیاں یہ اشیاء عام مارکیٹ نہیں رکھتی کیونکہ اس سے وہ اپنی اشیاء مہنگے داموں فروخت نہیں کر سکتی۔ اور نہ عوام کو لوٹ سکتی ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں ایسی کمپنیاں آئی اور بھاگ گئیں۔لاہور میں 2009 میں ٹائنز نامی کمپنی چلی جو بہت جلد بھاگ گئی۔ اگر ہم اپنے شہر منڈی بہائوالدین کی بات کریں تو منڈی بہائوالدین میں 2010 میں گولڈ مائن انٹرنیشنل GMI آئی تھی جو چند ماہ چلنے کے بعد بھاگ گئی۔ اب ٹآئنز کمپنی جو کہ ۲۰۱۳ میں منڈی بہائوالدین میں پنجاب سنٹر، پھالیہ روڑ پر موجود ہے جو کہ ہزاروں لوگوں سے لاکھوں روپے لوٹ چکی ہے اور پتا نہیں کتنے اور لوٹے گی
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تمام لوگ سکیم کے ممبر بن جائیں تو یقینا سارا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ پھر جب کوئی ممبر بننے والا ہی نہ رہے گا تو سینکڑوں نئے ممبرز کی رقوم کا کیا بنے گا۔کیونکہ جب تک بڑی تعداد میں ممبرز بنتے رہیں تو زیادہ کمیشن مل نہیں سکتا۔ اس لئے کمپنی والے کہتے ہیں کہ فائدہ میں وہی رہے گا جو پہلے ممبر بنے گا۔
ان سکیموں میں پیرا مڈ سیل کا طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ سکیمیں پہلے بھی کئی غریب ملکوں کو نشانہ بنا چکی ہے اور یہ جوئے کی شکلیں ہیں جو دنیا کے کئی ملکوں میں بھی بروئے کار رہی ہیں۔ انہیں Pyramid Salesیعنی مخروطی طریقہ فروخت کہا جاتاہے جس میں ممبران کی بیس یعنی قاعدہ جس قدر بڑھتا ہے اوپر اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ان سکیموں کا زیادہ تر نشانہ ترقی پذید اور غریب ممالک ہوتا ہے۔ البانیہ انہی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا تھا کیونکہ ان سیکمیوں میں لوگوں کی بہت زیادہ رقم غیر ضروری چیزویں کی فروخت کے نام پر ان کمپنیوں کے پاس جمع ہو جاتی ہے۔ لوگ زیادہ کمیشن کے لالچ میں یہ غیر ضروری چیزیں کافی مقدار میں خرید لیتے ہیں اور منافع کی آس میں ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے ملک کی اصل ترقی و تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ان سے مسلمانوں کو ہر صورت ہوشیار رہنا چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے۔۔
ان کمپنیوں کا طریقہ کار سرا سر حرام ہے اور ان کی حرمت کی کئی موجوہات ہیں۔
ان کمپنیوں نے اپنے لٹریچر میں یہ وضاحت کی ہی ہے کہ ہماری اس کمپنی کا ممبر بننے میں خسارے کا کوئی امکان نہیں۔No Riskکے الفاظ ان کے لٹریچر پر لکھے ہیں اور یہ سرا سر سود ہے جس کو اللہ رب العا لمین نے حرام کیا ہے۔ اس کو تجارت اور منافع قرار دینا سود کے مفہوم سے جہالت یا تجاہل کا نتیجہ ہے (جس سے ان کی حیلہ سازی کاثبوت بھی ملتا ہے)کیونکہ انسان کے لیے منافع کے حصول کی عموماً تین صورتیں بنتی ہیں۔
1۔ اپنا مال کسی دوسرے شخص کے سپرد کر دینا کہ آپ اس مال سے تجارت کریں اور جو فائدہ ہو گا اسے ہم آپس میں ایک متعین مقدار پر تقسیم لر لیں گے۔ یہ صورت صرف مال سے منافع حاصل کرنے کی ہے۔ اس میں مال اور محنت دونوں کے ضائع ہو جانے کاامکان بھی رہتا ہے۔ اس صورت میں منافع اور سود میں فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سودی کاروبار میں پہلے سے منافع کی شرع متعین ہوتی ہے اور وہ یقینی ہوتا ہے جیسا کہ یہ کمپنی والے خود افراد اور اعلان کر رہے ہیں کہ آپ کا منافع بے حساب اور یقینی ہے جبکہ تجارت میں منافع یقینی بھی نہیںہوتا اور اس کی شرع متعین بھی نہیں ہو سکتی۔
2.انسان خود اپنے مال کے ساتھ تجارت کرے اور اسے اس سے نفع حاصل ہو یا اپنا مال کسی دوسرے کو دے اور اس کے ساتھ خود بھی کام کرے۔ اس صورت میں بھی سود تجارت سے مختلف ہے کیونکہ تجارت میں مال والا اپنی محنت صرف کرتاہے جبکہ سودی کاربار میں مال والا کوئی محنت نہیں کرتا۔ ان سکیموں میں یہ ہوتا ہے کہ جب پہلا ممبر بن جائے تو آگے مزید دو یا تین ممبر بنائیں۔ بنیادی ذمہ داری اگلے ممبر کی ہے نہ کہ پہلے ممبر کی۔ لیکن پہلا ممبر آخر تک بننے ولاے ممبر کے منافع اور کمیشن میں شریک ہو جاتا ہے۔ جبکہ ان سب سے پہلے ممبر کی کوئی محنت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی مال دیا ہوتا ہے۔
3۔ ایک تیسری صورت یہ ہے کہ بندہ صرف کام ہی کر لے اس کا اپنا کوئی مال اس میں لگاہوا نہ ہو جیسے کوئی شخص مضاربت پر محنت کر رہا ہے یا کسی اور شخص کے کام میں شریک ہے کہ نفع آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ اس صورت میں بھی آدمی اپنی محنت کے نتیجہ میں نفع حاصل کر رہا ہے۔ جبکہ کمپنی کا ممبر دوسروں کی محنت کے نفع میں شریک ہوتا ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بناء پر اس کمپنی کاتمام کاروبار سود کے زمرہ میں آجاتا ہے۔
پھر شریعت اسلامیہ کا یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ کسی بھی کام اور معاملے پر حکم اس کے مقصد کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے۔ اگر وہ کام حلال ہے۔ مگر جس مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے وہ خلاف شریعت اور حرام ہے تو اس کا حکم اور ہو گا اور اگر وہ حلال موافق شریعت اور حرام ہے تو اس کا حکم اور ہو گا اور اگر وہ حلال موافق شریعت مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے تو اس کا حکم اور ہو گا۔ انگور کی تجارت کرنا اور اسے فروخت کرنا حلال ہے لیکن جب اس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ شراب کشید کرنے کے لئے خریدنا چاہتاہے تو اس کا حکم اور ہو گا۔ مکلف کے تمام قولی اور فعلی معاملات میں یہی اصول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔