اب ہر چیز آن لائن بیچیں

eto pk Logo

سید عبدالوہاب شاہ

دنیا کی گلوبلائزیشن کے اب دنیا بالکل تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔آج کی ڈیجیٹل دنیا میں کسی بھی میدان میں چاہے وہ کاروبار ہو یا سیاست، دین و مذہب ہو یامعاشرت، جنگ کا میدان ہو یاکچھ اور، ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔

اگر ہم صرف کاروبار کو ہی دیکھیں، تو پہلے دکان کھولنے کے لیے بڑی پلاننگ کرنی پڑتی تھی، بندہ پہلے چالیس پچاس لوگوں سے پوچھتا تھا میں کس چیز کا کاروبار کروں یا کس چیز کی دکان کھولوں؟  جتنے منہ اتنے جواب سننے کے بعد بالاخر کسی ایک چیز کا انتخاب ہوتا تھا۔ اب دوسرا مرحلہ پیسوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔آج کل کے دور میں بھی ایک چھوٹی اور معمولی محلے کی سطح پر دکان کھولنے کے لیے پچاس ہزار سے ایک لاکھ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑی دکانیں اور بڑے کاروبار تو آپ جانتے ہیں جتنا گُڑ ڈالیں اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ لیکن اہم اور سوچنے پر مجبور کردینے والی بات یہ ہے کہ اگر آپ ایک لاکھ والی چھوٹی سے محلے کی دکان بھی کھولیں تو وہ ایک لاکھ پورا کا پورا آپ کو انوسٹ کرنا پڑتا ہے، اب وہ پراڈکٹ کی شکل میں آپ کی دکان میں پڑا رہتا ہے، اور آہستہ آہستہ کاروبار چلتا ہے۔ اگر کاروبار نہ چلا تو اس کاروبار کو چھوڑنے کے لیے سب کچھ کوڑیوں کے بھاو دینا پڑتا ہے۔

لیکن آن لائن دکان اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں دکان بنانے کے لیے آپ کو اینٹ،بجری،سیمنٹ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی بنی بنائی دکان کے مالک کی منت ترلے کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کرایہ دینا ہے اور نہ ہی ایڈوانس، پگڑی ، سیکورٹی وغیرہ  کچھ بھی  نہیں۔

عام طور پر دکان کسی ایک آئٹم کی نہیں ہوتی، ایک دکان میں ہزار طرح کی چیزیں لانی پڑتی ہے، کیونکہ آپ کی محلے کی دکان صرف اسی محلے یا ایک دو گلیوں کے سو دو سو افراد کے لیے ہوتی ہے۔ اگر آپ کی دکان پر صرف دس آئٹم ہوں گے تو آپ کا کاروبار آپ کو فائدہ نہیں دیتا ہے۔اس لیے دکان میں ہر قسم کی چیزیں رکھنی پڑتی ہیں۔

لیکن آن لائن سٹور کا معاملہ ایسا نہیں آپ صرف ایک ہی آئٹم فروخت کرسکتے ہیں اور آپ کے گاہک سو دو سو نہیں بلکہ دنیا کی سات ارب آبادی ہے۔ اس لیے یہاں ایک آئٹم فروخت کرکے بھی اچھی خاصی ارننگ کی جاسکتی ہے۔

میں اپنی مثال دوں کہ آج سے صرف ایک مہینہ پہلے میں نے صرف ایک آئٹم یعنی سلاجیت ایک مہینے میں تقریبا پچاس ہزار کی سیل ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سیل بغیر کسی آن لائن دکان کے کی ہے، یعنی صرف فیس بک، اور یوٹیوب کے ذریعے ۔ اور اب www.ETOpk.com پر  آن لائن دکان بھی بنا لی ہے۔اگر ایک آئٹم کی سیل مہینے میں پچاس ہزار ہو سکتی ہے تو دس آئٹم کی کتنی ہوگی۔؟

میں نے لوگوں کو آن لائن گھاس بیچتے بھی دیکھا ہے۔ اور آن لائن گھاس بیچ کر اچھی خاصی ارننگ کرتے بھی دیکھا ہے۔ آپ کو www.ETOpk.com پر دکان بنانے کے لیے کوئی خاص بڑی پلاننگ کرنے اور انوسٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس دو چار مناسب سی چیزوں کا انتخاب کریں، ان کی تصویر لیں۔ www.ETOpk.com پر بطور ونڈر یعنی سیلر کے رجسٹر ہوں، اپنی پروفائل بنائیں، پراڈکٹ لگائیں، جب آرڈر ملے تو وہ چیز پیک کرکے پاکستان پوسٹ وغیرہ کے ذریعے روانہ کردیں۔ کسٹمر خریدنے سے پہلے ویب سائٹ پر اپنی پیمنٹ بینک اکاونٹ کے ذریعے ویب سائٹ کو ادا کرے گااور ویب سائٹ ایک خاص مقدار تک آپ کی سیل جمع ہونے کے بعد آپ کو بذریعہ بینک اکاونٹ، ایزی پیسہ، جاز کیش کے ادا کردے گی۔

یہ کاروبار آپ صرف ایک دو ہزار روپے سے بھی شروع کرسکتے ہیں، مثلا دواچھی کوالٹی کی ہنڈفری خرید لیں، ایک کلو بادام خرید لیں، اخروٹ خرید لیں، یا جو بھی آپ پہلے سے بیچ رہے ہیں آپ کی دکان ہے ، آپ کا کاروبار ہے ، آپ وہی چیزیں آف لائن بیچنے کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی اپلوڈ کردیں۔

خاص گُر کی بات:

ہر چیز کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔آن لائن بیچنے کا خاص گُر یہ ہے کہ آپ چیز اعلیٰ کوالٹی کی بیچیں۔ بے شک آپ مہنگی بیچیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن چیز ایک نمبر اور اعلیٰ کوالٹی کی ہونی چاہیے۔  اگر اعلیٰ کوالٹی کی چیز آف لائن ایک ہزار کی ملتی ہے اور آپ آن لائن اسے پندرہ سو میں بیچتے ہیں یہ کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ جس نے خریدنی ہے اپنی مرضی سے خریدنی ہے، جب وہ خرید لے گا اور چیز ایک نمبر ہوگی تو وہ بہت خوش ہوگا اور آپ کی آن لائن دکان کو ریٹنگ دے گا، جو آنے والے گاہکوں کو آپ کی طرف راغب کرے گی۔ لیکن آپ نے ہزار والی چیز آٹھ سو میں دی اور گھٹیا کوالٹی کی دی تو ایسا ایک دو بار تو آپ کر لیں گے لیکن آئندہ کوئی بھی آپ کے سٹور سے نہیں خریدے گا۔

اگر میری باتیں آپ کو پسند آئی ہیں تو لازما اسے آگے فیس بک اور وٹس اپ پر شیئر کریں۔

جزاک اللہ خیرا

سید عبدالوہاب شیرازی

03470005578

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.