اسلام اور سیاست
عرض ناشر
اما بعد!
غیر منقسم ہندو پاک میں انگریزی دورحکومت میں مسلمانوں پر جس طرح علمی و ملی زوال آیا وہ اپنے اندر ایک الگ کربناک داستان لئے ہوئے ہے۔ اس دور میں کچھ ایسی فضا ہموار کی گئی کہ عوام الناس کا تعلق اہل علم حضرات سے دھیرے دھیرے کتا گیا۔ اور عوام الناس کی فکری اور میری ذہن پر اسلامی رنگ کے بجائے مغربی سیاہ بادل چھانے لگے۔ جس سے مسلمانوں میں ایسازبردست فکری انحطاط آیا کہ خود مسلمانوں نے دائرہ اسلام جو کہ معہد سے لے کرلید تک ساری زندگی پر محیط تھا سمیٹ کر صرف نماز ، روزہ تک محدود کر لیا۔ اور وہ شعائر جو مسلمانوں کی دین شخص کا نشان تھے بندرتن دھندلے ہوتے چلے گئے۔
جب اس فکری انحطاط کی وجہ سے اسلام کو محدود کر دیا گیا تو حکومتی نظام ایسے لوگوں کی وراثت سمجھا جانے لگا جن کو دور دور تک اسلام کی سوجھ بوجھ بھی تھی۔ اور خود مسلمانوں کی اکثریت اس بارہ میں لاعلم تھی کہ اسلام نے حکومتی نظام کے لئے ہمیں کیا لامل دیا ہے؟ اس بے فکری و لاعلمی کی بدولت مسلمانوں کی رغبت جمہوریت سوشلزم اور کیمونزم وغیرہ جیسے لادینی نظام ہائے حکومت کی طرف ہوگئی۔ بالآخر مسلمان بے دست و پا ہوکر جمہوریت کے شکنجے میں اس طرح جکڑے گئے تقسیم کے بعد بھی فرگی کا دیا ہوا نظام را رہا اور اب یہ اتنا راسخ ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کیلئے اس کے منفی پہلوؤں کو جانتے ہوئے بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے۔
موجودہ دور میں ایک درد مند دل رکھنے والے مسلمان کو کیا کرنا چا ہے ؟ اور وہ اپنی بساط کی حد تک اپنے حلقہ میں اسلام کے نفاذ کیلئے کیا عملی اقدام کرسکتا ہے؟ اور وہ افراط وتفریط سے بچتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ