Site icon E-Islamic Books

مقاصد احادیث

MAQASID E AHADITH مقاصد احادیث

مقاصد احادیث

پیش لفظ

۲۰۱۴ء میں ڈیوک یونیورسٹی (امریکا) میں ایم اے کا فائنل سال تھا اور فائنل مقالے کے لیے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کرنا تھا ، جو پچاس ساٹھ صفحات میں سما سکے۔ غور وفکر کے بعد میں نے اپنا موضوع ” علمائے ہند کے درمیان معتاصد شریعت پر بحث و مباحثے کا تنقیدی جائزہ منتخب کیا۔ مقالہ لکھنے کے لیے جب میں نے کام کا آغاز کیا تو سب سے پہلے عہد صحابہ سے لے کر عصر حاضر تک کے اصول فقہ سے متعلق اقوال، اس موضوع پر لکھی گئی تحریریں، رسالے اور کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھا۔ علمائے احناف میں امام ابو بکر جصاص (۵۳۷۰/ ۳۰۵) کی الفصول فی الاصول، امام سرخسی (م۲۹۰ھ) کی المبسوط ، شوافع میں امام الحرمین عبد الملک جوینی (۵۴۷۸ ۴۱۹ھ) کی غیاث الاسم فی التیاث انظلم ، حنابلہ میں ابن تیمیہ (۵۷۲۸/ ۶۶۱ ھ ) کا مجموعہ فتاوی اور ابن قیم جوزیہ (۷۵۱ ۵/ ۶۹۱ھ) کی اعلام الموقعین، مالکیہ میں علامہ ابراہیم المعروف بہ امام شاطبی غرناطمی (م۷۹۰ھ) کی الموافقات خاص طور پر مطالعے کا حصہ رہیں۔ علم مقاصد کو شہرت امام شاطبی ہی سے ملی تھی ، اس لیے الموافقات پر توجہ زیادہ مرکوز رہی۔ اس دوران عربی اور انگلش میں لکھے گئے مختلف مقالے اور کتا بیں بھی زیر مطالعہ رہیں۔

میں چوں کہ حدیث نبوی کا ادنی طالب علم ہوں، اس لیے کسی بھی بحث کو پہلے علم حدیث کے پیرایے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مصر اور عالم عرب میں آج کل علم حدیث پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے اور خاص طور پر علمائے کرام حدیث نبوی کے موضوعاتی مطالعے پر مختلف گوشوں سے بحث کرتے ہیں اور پی ایچ ڈی اور ایم فل میں بھی طلبہ کسی ایک موضوع پر حدیث جمع کرتے ہیں اور اس کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں۔ میں نے جب تلاش کیا تو پتا چلا کہ مقاصد کے موضوع پر حدیث شریف کا کوئی مجموعہ کم از کم میرے محدود مطالعے میں منظر عام پر نہیں آیا ہے، تا ہم درود حدیث یا اسباب ورود حدیث کے موضوع پر علمائے حدیث نے اصول حدیث کی کتابوں میں جزوی طور پر بحث ضرور کی ہے۔ امام سراج الدین بلقینی (۵۸۰۵ / ۷۲۴ ھ ) شافعی نے اپنی کتاب ” محاسن الاصطلاح میں ۶۹ رویس نوع کے تحت اسباب حدیث پر گفتگو کی ہے۔ حافظ ابن حجر (۵۸۵۲ ۷۷۳ھ) نے ”نخبۃ الفکر کی شرح نزہتہ النظر میں کچھ کتابوں کا ذکر کیا ہے، مگر وہ کتا میں اب تک سامنے نہیں آسکی ہیں۔ امام سیوطی (۸۴۹/۵۹۱۱ھ) نے اس موضوع پر مستقل رسالہ اللمع في اسباب ورود الحدیث یا اسباب ورود الحدیث کے نام سے ترتیب دیا ہے، جس میں گیارہ ابواب کے تحت اٹھانویں حدیثیں ، احادیث کی مختلف کتابوں سے ذکر کیا ہے۔

امام سیوطی نے اپنی اس کتاب میں صحت کا التزام نہیں کیا ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں سے اسباب حدیث کے موضوع پر عربی زبان میں کتابیں ، پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے بھی لکھے جارہے ہیں، تاہم ان کی بھی تعداد گنی چنی ہی ہیں۔ میں نے فروری ۲۰۱۴ ء میں طے کر لیا کہ ایم اے سے فراغت کے بعد مقاصد کے موضوع پر حدیث پاک کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے گا – ۱۴۳۵ھ/ ۲۰۱۴ ء کا رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ نمودار ہوا، میں نے اس رمضان میں کم از کم سو حدیثوں کا مجموعہ تیار کرنے کا ارادہ کر لیا۔ تراویح کی نماز سے فراغت کے بعد سحری کے وقت تک رمضان شریف کے نصف اول میں صحاح سنن ، اور مسانید کے مختلف ابواب کا مطالعہ شروع کیا اور کوشش یہ کی کہ ایسی حدیثوں کا انتخاب کیا جائے جن میں کسی بھی مقصد کا بیان لفظی یا معنوی طور پر واضح ہو، کیوں کہ احکام کی حدیثیں عام طور پر علت اور مقاصد پر یقینا روشنی ڈالتی ہیں، مگر وہ مقاصد اور علت اکثر اوقات توضیح کے محتاج ہوتے ہیں ، جن کو فقہائے کرام بخوبی اپنی کتابوں میں اجاگر کرتے ہیں۔ میں نے یہ کوشش کی کہ ایسی حدیثوں کا انتخاب کیا جائے ، جس میں کسی توضیح کی ضرورت نہ پڑے، بلکہ محض حدیث کو پڑھنے سے مقصد کی طرف ذہن چلا جائے اور اگر کچھ ابہام رہ جائے تو حدیث کا عنوان اور اس کا معنی اس ابہام کو دور کر دے۔ اسی دوران یہ بھی خیال آیا کہ کئی حدیثیں مقصد سے زیادہ سبب کے معنی کو واضح کرتی ہیں ، اس لیے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلا حصہ جس میں واضح طور پر مقاصد کی حدیثیں ہوں اور دوسرا حصہ جس میں واضح طور پر اسباب کی حدیثیں ہوں۔ اللہ کے فضل وکرم سے رمضان شریف کے نصف اول میں مطالعے کا کام ہو گیا اور نصف اخیر میں مسودے کا کام بھی مکمل ہو گیا۔

مقاصد احادیث

رمضان کے بعد علمی مصروفیات اور دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں اس قدر بڑھ گئیں کہ مشکل سے مبیضہ کا مرحلہ پار کر سکا۔ ۱۴۳۶ھ/ ۲۰۱۵ء کے رمضان سے پہلے گرچہ کتاب کا علمی مواد مقدمے کے ساتھ پورا ہو چکا تھا، تاہم کچھ فنی چیزیں باقی رہ گئی تھیں، جس کے لیے دقت نظر کی ضرورت تھی، اس لیے ۱۴۳۶ھ/ ۲۱۰۵ ء کے رمضان کا نصف اول بھی اس کی فنی تزئین وارائش میں صرف ہو گیا اور رمضان کے بعد اس کی طباعت کی تیاری ہوگئی۔ اب اللہ کے فضل وکرم سے کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب سے متعلق چار اہم باتیں ضروری ہیں: (1) میں نے خاص طور پر یہ خیال رکھا ہے کہ اس مجموعے میں صرف صحیح یا حسن حدیثیں ہوں، اس لیے حدیث کی مشہور اور معتبر کتابوں کے حوالے سے ہی حدیثیں منتخب کی گئی ہیں۔ متفق علیہ حدیثوں کی تعداد ۴۶ صحیح بخاری کی حدیثوں کی تعداد ۱۰ صحیح مسلم کی حدیثوں کی تعداد ۲۸، سنن ابی داؤد کی حدیثوں کی تعداد ہ سنن ترمذی کی ۵ سنن نسائی کیا ، اور مسند امام احمد ابن حنبل کی حدیثوں کی تعداد ۵ ہے۔ بخاری اور مسلم کی حدیثوں کے بارے میں تو کوئی کلام ہی نہیں، مگر دیگر کتب کی حدیثوں کا جب ذکر کیا تو اس میں بھی یہ خیال رکھا کہ وہ کم از کم حسن کے درجے پر ہوں، اس لیے ایک مقام کے علاوہ جہاں بھی مسند امام احمد بن حنبل کے حوالے سے جب کوئی حدیث آئی تو اس کے ساتھ یا تو امام ترمذی کی سنن یا امام ابن حجر ہیتمی کی مجمع الزوائد سے حکم بھی نقل کر دیا ۔

امام ابوداؤد کی حدیثوں کے ساتھ حکم اس لیے نقل نہیں کیا کہ ان کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ جس حدیث پر وہ حکم نہیں لگاتے وہ صحت اور حسن کے درجے میں ہوتی ہے، لہذا ان کی شرط پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔ اسی طرح امام نسائی کی بعض حدیث گرچہ متکلم فیہ ہیں، مگر میں نے جس حدیث کا انتخاب کیا وہ صیح ہے ، غرض کہ اس مجموعے میں کوئی ضعیف حدیث نہیں۔

(۲) اس مجموعے کی ترتیب کے وقت یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ایسی حدیثوں کا انتخاب کیا جائے جو اخلاق اور اصلاح احوال سے متعلق ہوں۔ مقاصد کی حدیثوں کو چار بنیادی موضوعات : مقاصد اخلاق ، مقاصد علم، مقاصد عمل اور مقاصد احکام کے تحت ذیلی عنوان کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اسباب کی حدیثوں کو سات بنیادی موضوعات : عظمت رسول ، قرآن کریم ، دعا، اخلاقیات، مال و دولت، جامع اعمال اور متفرقات کے تحت دیگر ذیلی عنوان کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔

(۳) حدیث کا عنوان ہی حدیث کے مقاصد اور سبب کا پتا دیتا ہے، جب کہ امام سیوطی نے اپنے مجموعے میں حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کے سبب سے متعلق دوسری روایت بھی نقل کی ہیں۔ (۴) موضوعات کی تقدیم و تاخیر بھی پوری توجہ کے ساتھ کی گئی ہے۔ مقاصد کے حصے میں اخلاق کے موضوعات کو اس لیے پہلے رکھا گیا ہے کہ اخلاق ہی تمام چیزوں کا اصل ہے اور اسباب کے حصے میں عظمت رسول صلی ہے کہ یتیم سے متعلق حدیثیں پہلے رکھی گئی ہیں، کیوں کہ عظمت مصطفی صلی شما را ستم کا اعتراف ہی ایمان کی بنیاد ہے۔ اسی طرح مقاصد کے حصے کا اختام احکام اور اسباب کے حصے کا اختتام دعا کی حدیثوں پر کیا گیا ہے کہ جب انسان اخلاق اور عمل کے مقاصد کو درست کر لیتا ہے تو شریعت کے احکام پر عمل کا ذوق بڑھ جاتا ہے اور اسی طرح جب عظمت رسول صلی اشیا کی تم سے مومن کا دل وارفتہ ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں قرآن اور دیگر اعمال کی محبت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ ہمیشہ محبت رسول صلی نما ہی نہم کے واسطے سے دنیا اور آخرت کی سرخروئی کی دعا میں مصروف رہتا ہے۔ یہ کتاب اہل علم کے لیے علم حدیث میں نئے گوشے کی رہنمائی کرتی ہے ، اساتذہ اور طلبہ کے لیے علمی مواد فراہم کرتی ہے، خطبا اور مقررین کے لیے بہترین سرمایہ ہے اور عوام کے لیے نسخہ کیمیا۔ اس کتاب کی ہر ہر حدیث میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔

اخیر میں میں اپنے ہر دل عزیز دوست مولا نا خوشتر نورانی (مدیر اعلی: ماه نامه جام نور، دہلی) کا شکر گزار ہوں کہ کتاب کی ترتیب میں انھوں نے اپنے گراں قدر اور تجرباتی مشوروں سے نوازا اور اس کی ایڈیٹنگ میں معاونت فرمائی۔ عزیزم مولوی عبد العلیم قادری بھی مستحق ہیں کہ انھوں نے بہت توجہ سے اس کی پروف ریڈنگ کی۔ اس کتاب کی ترتیب میں اگر کوئی خامی رہ گئی ہے تو وہ میرے علم و فہم کا قصور ہے اور جو حسن ہے وہ اللہ تعالی کی توفیق اور اس کے رسول صلی یا کہ یتیم کے فیضان کرم کا صدقہ ہے۔ مولیٰ تعالی اس کتاب کو اصلاح احوال کا ذریعہ بنائے ، آمین۔

منظر الاسلام از هری

یکم جولائی ۲۰۱۶ء

MAQASID E AHADITH

آن لائن پڑھیں

ڈاون لوڈ کریں

طب یونانی کی پوری لائبریری

Exit mobile version