مساجد
مساجد فضائل، مسائل اور متعلقہ امور
بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
مساجد مسلمانوں کے اہم مراکز حضرت اقدس مفتی محمد جمال الدین صاحب مدظلہ صدر المدرسین و صدر مفتی دار العلوم حیدر آباد
مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، اس کا سب سے محبوب ترین مقام ہے، مسلمانوں کی جائے عبادت ہے، مسجد خالق و مخلوق کے مابین رشتے کی مضبوطی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے، یہ ایسی متبرک جگہ ہے جہاں رحمت خداوندی کا نزول ہوتا ہے، یہاں آکر ایک مومن کے دل کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے، اس کی بیمار اور پژمردہ روح کے لیے مسجد کا پر رونق ما حول شفا بخش اور فرحت کن ثابت ہوتا ہے۔
نصوص میں مساجد کی بہت سی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں، چناں چہ ایک حدیث میں انہیں خدا کی سب سے پسندیدہ جگہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم، حدیث نمبر : ۲۸۸) مساجد کی تعمیر کرنے والوں کے لیے جنت کے محلات کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ (بخاری، حدیث نمبر :۴۵۰) اور مسجد سے اپنا تعلق استوار رکھنے والے شخص کو ایسے دن ٹھنڈے اور اطمینان بخش سایہ کا سرٹیفکٹ دیا گیا ہے جس دن سارے لوگ سخت گرمی سے جھلس رہے ہوں گے اور پسینے سے شرابور ہوں گے ۔ ( بخاری ،حدیث نمبر :۶۶۰)
آغاز اسلام ہی سے مساجد امتیازی حیثیت کی حامل رہی ہیں اور مسلمانوں کی اولین ضرورت سمجھی گئی ہیں، مکہ مکرمہ میں چوں کہ دشمنانِ اسلام کا تسلط اور غلبہ تھا، مسلمان نہایت ہی پر آشوب اور شکیب رہا دور سے گزر رہے تھے، ایسے نازک حالات میں کسی مسجد کی تعمیر کرنا ناممکن تھا؛ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی جانب ہجرت فرمائی، جہاں کے حالات مسلمانوں کے لیے سازگار اور موافق تھے اور دوان سفر مقام قبا میں رونق افروز ہوئے ، تو سب سے پہلا کام جو آپ سائنسی ایتم نے کیا، وہ مسجد کی تعمیر کا تھا ، آپ مانیا اسلام بھی بنفس نفیس تعمیر میں شریک ہوئے، یہ مسجد قبا“ کے نام سے معروف ہوئی ، پھر جب آپ ملا یہ کہ تم اپنی اصل جائے قیام مدینہ منورہ پہونچے ، تو وہاں بھی پہلے مرحلے میں آپ نے یہ کام انجام دیا کہ جہاں آپ کی ناقہ پہلی بار میٹھی تھی ، وہ جگہ اس کے مالک ( جو کہ دو یتیم بچے سہل اور سہیل رضی اللہ عنہما تھے، انہوں نے بلا کسی معاوضہ آپ کی نذر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا؛ لیکن آپ نے اس کو منظور نہیں فرمایا ) سے خرید کر وہاں مسجد کی تعمیر فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر کے شریک رہے۔ دور نبوی میں مساجد کا کردار صرف با جماعت نماز کی ادائیگی تک محدود نہیں تھا؛ بلکہ وہ مسلمانوں کے اہم مراکز تھے، جہاں سے دیگر امور خواہ تہذیبی ہوں، یا تمدنی، تعلیمی ہوں، یا ثقافتی ، معاشرتی ہوں، یا معاشی سب انجام دیے جاتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ اسی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:
امت کے مجمع اور ائمہ کی جگہیں مساجد تھیں ؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متبرک مسجد کی بنیاد تقوی پر رکھی تھی، اس میں نماز ، تلاوت قرآن، ذکر تعلیم اور خطبے ہوتے تھے،سیاسی امور طے پاتے تھے اور لشکر کے سپہ سالار کے لیے جھنڈے تیار ہوتے تھے، امراء اور ذمہ دار افراد کا تقرر ہوتا تھا اور اسی میں مسلمان اپنے دینی اور دنیوی امور کے لیے جمع ہوتے تھے، اسی طرح وہ حکام جو آپ کی جانب سے مکہ، طائف، یمن اور دیگر علاقوں میں مقرر تھے ، وہ بھی مساجد ہی میں نماز ادا کرتے تھے اور سیاسی امور بھی انجام دیتے تھے۔ (مجموع الفتاوی: ۳۹٫۳۵) موجودہ دور میں امت مسلمہ میں جو تنزلی آئی ہے، اس کا مساجد پر بھی گہرا اثر پڑا ہے، مساجد سے ان کا رشتہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے، پنج وقتہ نمازوں کی باجماعت ادا ئیگی کے لیے سب کی مساجد میں حاضری نہیں ہو پاتی ؛ چہ جائے کہ مساجد میں دیگر امور کی انجام دہی کے لیے انہیں پابند کیا جائے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنج وقتہ اذان اور نماز جیسے اہم فرائض کی ادائیگی کے لیے قوم جن افراد کو اپنا مؤذن اور امام بناتی ہے، ان میں سے بعض اس کے اہل ہی نہیں ہوتے اور جو اہل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ مصلیوں کا سلوک ناروا ہوتا ہے، ان کے مقام ومرتبے کا لحاظ کیے بغیر ہر ایک ان پر تنقید و تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، اسی طرح متولیوں کی طبقے کی تو اور ہی حالتِ زار ہے، نااہل افراد کے کندھوں پر محض ان کی دنیوی جاہ و منصب کے پیش نظر یہ نازک اور حساس ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے اور وہ اموال مساجد میں جیسے چاہیں تصرف کرتے رہتے ہیں۔
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مساجد کو روحانی طور پر آباد ر کھنے سے زیادہ ان کی ظاہری خوب صورتی اور نقش و نگار کی جانب زیادہ توجہ مبذول کی جارہی ہے اور لاکھوں کڑوڑوں کا صرفہ اس کی خاطر برداشت کیا جارہا ہے، پھر نماز کے تعلق سے بعض مسائل میں ایسی افراط و تفریط پائی جارہی ہے کہ ہر ایک دوسرے سے دست بہ گریباں نظر آتا ہے، مثلا فرض نمازوں کے بعد دعا کا مسئلہ اور جماعت ثانیہ کا مسئلہ، ان جیسے مسائل میں راہ اعتدال سے انحراف ہو چکا ہے۔ ضرورت تھی کہ مذکورہ خامیوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کر کے امت مسلمہ کے سامنے صراط مستقیم واضح کی جائے اور انہیں راہ اعتدال پر گامزن کیا جائے ، چناں چہ معاشرے میں پائی جانے والی کوتا ہیوں پر نظر رکھنے والے جواں عالم دین اور علم وتحقیق کے شناور مفتی عبد اللطیف صاحب قاسمی زید علمه وفضله استاذ جامعہ غیث الہدی بنگلور جنہیں میں زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں ، آپ ایک دل فکر مند رکھتے ہیں، علمی اور تحقیقی کاموں سے آپ کا خاص لگاؤ ہے تحریر کا بھی شستہ ذوق رکھتے ہیں، اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں فکرمند رہتے ہیں، بالخصوص مساجد کے تعلق سے نہایت ہی حساس واقع ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل اذان کے تعلق سے بھی آپ کی ایک مفید کتاب اذان اور مؤذنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منظر عام پر آچکی ہے، اس کے علاوہ (حاملین قرآن، انتیسیر فی التصريف ، فہارس خطبات و مواعظ ، رہنما اصول برائے خوش گوار ازدواجی زندگی ، اساتذہ کا کردار اور چند عملی نمونے کے مرتب و مؤلف ہیں) نے اس کی جانب توجہ کی اور مساجد : فضائل، مسائل اور متعلقہ امور کے نام سے کتاب لکھی ، جس میں آپ نے اولاً مساجد کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی ہے، اس کے ضمن میں مسجد حرام، حجر اسود، رکن یمانی ملتزم، مقام ابراہیم، حطیم، ماء زمزم، مسجد نبوی، منبر رسول، ریاض الجنۃ، روضہ رسول، صفہ اور اصحاب صفہ اور قبلہ اول بیت المقدس کے متعلق بھی تفصیلات ذکر کی ہیں، جو پڑھنے والوں کے لیے نہ صرف یہ کہ معلومات میں اضافہ کرتی ہیں ؛ بلکہ ان مقامات کی تئیں ان کی محبت کی چنگاری کو شعلہ زن بھی کرتی ہیں، خاص طور پر حج و عمرے کے لیے جانے والے حضرات اس کا مطالعہ کریں، تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔
اس کے بعد مصنف نے ائمہ ومؤذنین کی ذمہ داریوں کا مختصر اور متولیوں کی ذمہ داریوں کا تفصیلاً ذکر کیا ہے، پھر مسجد کی تزئین کے جو حدود ہیں انہیں بیان کیا ہے، آگے چل کر مسجد اور اس سے متعلق مسائل ذکر کیے گئے ہیں، جن میں باجماعت نماز کی ادائیگی اور صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے، آج اس تعلق سے مسلمانوں میں بہت ہی کوتا ہی پائی جارہی ہے، اخیر میں مصنف نے ایسے مسائل قلم بند کیے ہیں جن میں کچھ ناجائز ہیں، اس کے باوجود ان میں ابتلاء عام ہے، اور کچھ فی نفسہ جائز تو ہیں ، مگر امت مسلمہ اس میں افراط و تفریط کی شکار ہے۔ ماشاء اللہ مؤلف نے ہر بات باحوالہ اور مدلل بیان کی ہے، ان کا قلم جادۂ حق سے ہٹا نہیں؛ بلکہ شائستہ انداز میں اختلافی موضوعات پر اچھا اور بہت اچھا لکھا ہے اور اپنے مقصد ومراد کے واضح کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہیں۔
قارئین سے التماس ہے کہ وہ اس کتاب کا سنجیدگی اور غور سے مطالعہ کریں، مسجد کی اہمیت اپنے دلوں میں پیدا کریں اور اس کتاب کا جو اصل مقصد ہے کہ امت مسلمہ راہ راست اور صراط مستقیم پر آجائے ، اس کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل طے کریں اور اپنی اپنی مساجد کو اس کتاب میں درج ہدایات کے مطابق ڈھالنے کی پہلی فرصت میں کوشش کریں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تالیف کو قبول عام نصیب فرمائے ، قوم مسلم کے لیے مفید بنائے اور مؤلف کے حق میں ذخیرہ آخرت بنائے ۔ آمین ثم آمین
( حضرت مولانا مفتی ) محمد جمال الدین قاسمی (مدظله) خادم دار العلوم حیدر آباد
۱۵ رصفر المظفر ۱۴۴۳ھ
مطابق : ۲۳ /ستمبر ۲۰۲۱ء
ان پیج 2121 میں مفت ڈاون لوڈ کریں
Masajid By Mufti Abdul Latif Qasmi
مساجد