مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی

مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی

مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی

حرف آغاز

مجاہد اعظم حضرت مولانا رحمت الله کیرانوی کا نام انیسویں صدی عیسوی کے ٹھیک وسط میں لوگوں کی زبان پر آیا جب انھوں نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ، پھر یہ نام پوری دنیا میں گونج گیا ۔ ایک زمانہ میں صلاح الدین ایوبی کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے عیسائی دنیا کی نیند حرام ہو گئی تھی ، انیسویں صدی کے نصف آخر میں مولانا کیرانوی کا نام پادریوں ، استقفوں اور مشنریز کی نجی مجلسوں میں ان کے جسموں پر لرزہ طاری کرنے کیلئے کافی تھا ، مولانا کیرانوی نے ہندوستان میں اسلام کی حفاظت اس خطرناک دور میں کی جب وہ موت وحیات کے دوراہے پر کھڑا تھا اور ہندوستان سے اسلام کا نام ونشان مٹا دینے کے لئے ایک جابر وقا ہر حکومت اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ میدان عمل میں آچکی تھی مگر قدرت نے اس یلغار کو روکنے کیلئے مولانا کیرانوی کو پیدا کیا جنھوں نے اس سیلاب کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی اور پھر سیلاب اپنے مخرج میں سمٹ کر رہ گیا ، یورپ کی سامراجی طاقتوں نے اپنی ہوس ملک گیری کے عفریت کو مذہبی لباس پہنا کر اپنی حکومت کے استحکام کا ایک تجربہ آج سے ڈھائی تین سو سال قبل اندلس میں کیا تھا جہاں نوسوسالہ مسلم حکومت کو اپنی متحدہ فوجی قوت اور سیاسی حکمت عملی سے فتح کیا اور اپنی حکومت کو دیر پا اور اپنے اقتدار کو محکم بنانے کیلئے عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کا جال بچھایا اور عیسائی پادریوں کی ایک پوری فوج کو اس مورچے کو فتح کرنے پر لگا دیا

لیکن جب یہ مرحله دیر طلب محسوس ہوا تو انھوں نے جبر و قہر کی سان چڑھائی ہوئی تلوار میں سونت لیں اور ہر سر کو مجبور کر دیا کہ وہ صلیب کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے اور جو اکڑنے کی کوشش کرے اس کی گردن مار دی جائے ، یہ تجربہ ان کا کامیاب رہا، اس طرح پورے اندلس پر صلیب پرستوں کا ایسا جابرانہ و قاہرانہ قبضہ ہو گیا کہ کسی بھی توحید پرست متنفس کو اندلس کی فضا میں سانس لینے کی اجازت نہیں رہی کسی مسلمان کو اپنی نوسوسالہ عظمت و اقتدار کی نشانیوں کو مڑ کر دیکھنے کی بھی مہلت نہیں دی گئی ، جہاں کبھی وہ شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کے ساتھ حکمراں رہے اسی سرزمین میں ان کو ایک محکوم اور غلام کی حیثیت سے بھی جینے کا حق چھین لیا گیا ، صلیب پرستوں کا انتہائی رعونت کے . ساتھ اعلان تھا کہ یا تو عیسائی ہو جاؤ یا اس سرزمین سے دور نکل جاؤ، پھر دوبارہ اس کی طرف مڑ کر دیکھنے کی بھی تم کو اجازت نہیں ، اور اگر مڑ کر اندلس کی طرف دیکھا تو تمہارا سر تمہارے قدموں میں ہوگا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پورے ملک میں ایک ایک دن پچاس پچاس ہزار مسلمانوں کو بپتسمہ (۱) لینے پر مجبور کر دیا گیا اور ٹنگی تلواروں کے سایے میں ان کے ایمان کو دم توڑنے کے لئے بے بس کر دیا گیا، جن بزدل، بے غیرت مسلمانوں ، یا اسلام کا نام لینے والوں نے ایمان کے بجائے جان کی حفاظت کو اولیت دی وہ سب کے سب عیسائی بنالئے گئے اور جو غیرت مند ایمان پر ثابت قدم رہے انھوں نے اندلس کی سرزمین ہمیشہ کیلئے چھوڑ دی اور کئی نسلوں تک خانہ بدوشی کی مصیبت بھری زندگی گزارتے رہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حکمراں عیش پسند اور تملق پسندوں کے نرغے میں گھرے رہے ، وہ اس شدید غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ دولت و حکومت ان کی زرخرید کنیز ہے وہ ہمارے قبضہ واختیار سے کبھی باہر نہیں جاسکتی ، ملک کے علماء ومشائخ تقرب (۱) رنگنا، عیسائی مذہب کی ایک رسم جس میں بچے کے پیدا ہونے پر اس کے سر پر مقدس پانی کے

چھینٹے ڈالے جاتے ہیں، اور اسے عیسائی مان لیا جاتا ہے۔ (فیروز اللغات کلاں ص: ۱۷۷)

Maulana Rahmatullah Kiranvi

By Maulana Aseer Adravi

Read Online

Download (8MB)

Link 1      Link 2

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.