سود پر تاریخی فیصلہ
بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العلمين، واللوة والسلام على رسوله الكريم،
وعلى اله وصحبه أجمعين، أما بعد:
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ موجودہ کسی قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں اس وجہ سے چھین کر سکتا ہے کہ یہ قانون قرآن و سنت پر مبنی اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ اس قسم کی درخواست وصول کرنے کے بعد وفاقی شرعی عدالت، حکومت پاکستان کو ایک نوٹس جاری کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرے، اگر متعلقہ فریقین کی سماعت کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ زیر کوئی قانون واقعتا اسلام کے خلاف ہے تو وہ ایک فیصلہ صادر کرتی ہے کہ ایک متعین مدت تک حکومت ایسا قانون لے کر آئے گی جو کہ اسلامی احکامات کے مطابق ہوگا، اور وہ قانون جسے اسلامی احکام کے منافی قرار دیا گیا تھا اس مدت کے بعد غیر مؤثر ہو جائے گا۔ ا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت اپیلٹ چ میں بھی کیا جاسکتا ہے جس میں اس فیصلے سے متاثر کوئی بھی شخص یا فریق اپیل
سود پر تاریخی فیصلہ دائر کر سکتا ہے، اور پھر سپریم کورٹ کی اس نے کا فیصلہ تھی تصور ہوتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپر یم کورٹ آف پاکستان کی شریعت اپیلٹ چ سنہ ۱۹۷۹ء کے آئین پاکستان کے چیپٹر A-3 کے تحت وجود میں آئی تھیں، لیکن ابتداء میں بھی قوانین کو ان کی جانچ پڑتال سے مستثنی قرار دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ان پر غور و خوض ان عدالتوں کے دائرۂ اختیار سے باہر تھا۔
چنانچہ مالیاتی قوانین بھی دس سال تک کے لئے ان عدالتوں میں ساعات سے محفوظ تھے، اس مدت کے ختم ہونے کے بعد بہت سی درخواستیں وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی گئیں تا کہ ان قوانین کو چین کیا جا سکے جو سود کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ وفاقی عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت کے بعد سنہ ۱۹۹۱ء میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ ایسے قوانین ، اسلامی احکامات کے خلاف ہیں۔ وفاقی حکومت پاکستان اور ملک کے مختلف بینک اور تمویلی اداروں نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ میچ میں دعوی دائر کردیا، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ میچ میں محترم جسٹس خلیل الرحمن خان صاحب، محترم جسٹس منیر اے شیخ صاحب، محترم جسٹس وجیہ الدین احمد صاحب اور جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب شامل تھے۔ اس
نے ان اپیلوں کی ساعت مارچ ۱۹۹۹ء میں شروع کی، اس پ نے نہیں علمائے کرام اور ملکی و غیر ملکی محققین کو دعوت دی،
کہ وہ اس اہم مسئلے پر عدالت کی معاونت کریں۔ یہ ماہرین جنھوں نے آ کر عدالت سے خطاب کیا، ان میں علمائے کرام، بینکار، قانون دان ، معیشت دان، متاجر حضرات اور چارٹرڈ اکا ونٹینٹ وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس مقدمے کی سماعت جولائی سنہ ۱۹۹۹ء کے آخر تک جاری رہی ، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
۲۳/ دسمبر سنہ ۱۹۹۹ء کو اس نئی صدی سے صرف آٹھ دن پہلے سپریم
Sood Per Tareekhi Faisla By Shaykh Mufti Taqi Usmani