*صور من حیاۃ التابعین ۔الدکتور عبدالرحمن رأفت الباشا***
حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی پاک زندگیوں سے یہ مبارک آثارا ور انمٹ نقوش ،،،کسی بیش بہا نولکھے میں ہیرے وجواہرات سے مزین چمکتے، دمکتے ،گلوبند ،کی مثل ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا صاحب نے اپنی کتاب میں مرتب فرما دیئے ہیں، ان ایمان افروز، حکمت آمیز، روح پرور، راہمنائے عقل ودل واقعات سے جہان قارئین اپنے اسلاف رحمۃ اللہ کی عظمتوں سے واقف ہونگے وہیں انھیں اپنے ذی علم و ذیشان اکابر کی علمی اہمیت و دینی رسوخ کا بھی بخوبی اندازہ ہوگا۔
دورِ حاضر میڈیا کا دَور کہلاتا ہے، اور جمہور کا چلن چلتا ہے، گویا یہ کوئی شرعی اُصول اور ثِقہ اُصول تو نہیں مگر فی زمانہ اک عرف ہے، سو اسکے نیک و بد سے اسکی حیثیت کا تعین کیا جاناچاہیئے۔ ہاں مسلم معاشرے میں اک مستحسن ضابطہ اور بھی رائج ہے وہ ’’تلقی بالقبول‘‘،، گویا اُمت کا صالح و اہلِ علم طبقہ خیر کو اخذ کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بالعموم بدَ و ناگوار کو ترک و رَدّ کرتا ہے، اور یہ بات حدیث کے حوالے سے یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میری اُمت کھبی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو گی‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی:) اور اسی مفہوم میں مستدرک حاکم کی بھی روایت سندِ صحیح کے ساتھ موجود ہے۔ سو اس معیاری پہلوکو دیکھیئے تو ڈاکٹر عبدالرحمن کی کتاب کو اک استنادی حیثیت حاصل ہو تی ہے ۔ خاص طور پر اک عمومی پذیرائی اور مقبولیت انکی کتاب کو حاصل ہوئی ہے، جسکا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ میری معلومات کی حد تک پاکستان میں تین مکتبہائے فکر نے اس کتاب کے ترجمہ کو شائع کیا ہے، ان تین تراجم کی اجمالی فہرست یوں ہے:
(۱)سیرتِ تابعین۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور(جماعت اسلامی)
(۲)حیاتِ تابعین کے درخشاں پہلو۔مترجم :محمود احمد غنضنفر۔نعمانی کتب خانہ لاہور(اہل حدیث)
(۳)تابعین رحھم اللہ تعالے کے واقعات۔ترجمہ و تلخیص:محمد حنیف عبدالمجید۔دارالھدٰی کراچی(اہل سنت و الجماعت دیوبند)
اس کتاب میں تذکیری پہلو کو زیادہ مدنظر رکھا گیا ہے، اور مومن اپنی گم شدہ میراث کو جلد ازجلد پانے کے لیے کسی صحرا میں موجود پیاسے کا پانی کے لیے، اور کسی سمندر میں ڈوبتے کا سہارے کے لیے تمنائی سے بھی زیادہ حریص ہونا چاہیئے۔ مقصدِ تالیف صد فی صد پورا ہو،،، اسکے لیے ہمیں بغور کتابِ مذکور کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر اسلاف کی راہ کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ اللہ تعالےٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنی رحمتوں اور نعمتوں(مادی و روحانی) سے بدرجہ اتم سرفراز فرمائے۔
محفل علمی ہے سو جاتے جاتے اک اور نکتہ بھی عرض کر دوں جو اسی کتاب اور اسکے ایک مترجم سے متعلق اک بڑی بحث میں فصیل بھی ہے گو یہ اور بات کہ: یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات۔۔۔دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اس کتاب کے آخری باب میں معتبر و محترم جس ہستی کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’ تمام قفہاء کرام اُنکی( علمی) ذریت و آل ہیں‘‘۔ یعنی وہ سیّدالفقہاء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز ہستی ہے۔ اب ذرا کتاب کا نام ایک بار پھرپڑھیئے کہ کس طبقہ ء اصحابِ ملت کے بارے میں یہ گنجینہ گرانمایہ رقم کیا گیا ہے،جی وہی قدّسی گروہ جو’’تابعین رحھم اللہ تعالے‘‘ کے لقب سے مقلب ہے!،، چناچہ اسی کتاب کے اک مترجم جناب محمود احمد غنضنفر صاحب ہیں جو اپنے مسلک کے مانے ہوئے محقق و ترجمان ہیں گویا وہ بہ زبانِ حال ہی نہیں بلکہ عملاً بھی ’’امام اعظم ‘‘ کی تابعیت کے قائل ہیں ، یا یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں جبھی تابعین پر اس کتاب کو ترجمہ کے لیے منتخب کیا جس میں الحمدللہ حضرۃ الا مام کا تذکرہِ خیر بھی موجود ہے کہ یہ خود دَورِ تابعین رحھم اللہ تعالے کا ’’ نہایت درخشاں پہلو‘‘ ہے ۔کیونکہ محمود احمد غنضنفر کے چند نادان بھائی بند بڑے زور شور سے اس امر واقع کے منکر ہیں اسلیئے ہم انھیں مؤدبانہ مشورہ عرض کرتے ہیں ،ان نشاء اللہ اگر وہ اس پر عمل پیرا ہوں تو اُنھیں اک ولی اللہ کے سے خوا ہ مخواہ کی جو کدورت و بغض ہے (جسکا نتیجہ بمطابقِ صحیح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم :اللہ سے جنگ ہے)کا ازالہ ہو گا ،بس مشور یہی ہے کہ ’’اپنے محقق ، محمود غنضنفر صاحب کی مترجم کتاب پڑھیئے:حیاتِ تابعین کے درخشاں پہلو‘‘ امیدِ واثق ہے اللہ رب العزت سے ،ضرور افاقہ ہوگا۔ ان شاء اللہ
jazakALLAH
*صور من حیاۃ التابعین ۔الدکتور عبدالرحمن رأفت الباشا***
حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی پاک زندگیوں سے یہ مبارک آثارا ور انمٹ نقوش ،،،کسی بیش بہا نولکھے میں ہیرے وجواہرات سے مزین چمکتے، دمکتے ،گلوبند ،کی مثل ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا صاحب نے اپنی کتاب میں مرتب فرما دیئے ہیں، ان ایمان افروز، حکمت آمیز، روح پرور، راہمنائے عقل ودل واقعات سے جہان قارئین اپنے اسلاف رحمۃ اللہ کی عظمتوں سے واقف ہونگے وہیں انھیں اپنے ذی علم و ذیشان اکابر کی علمی اہمیت و دینی رسوخ کا بھی بخوبی اندازہ ہوگا۔
دورِ حاضر میڈیا کا دَور کہلاتا ہے، اور جمہور کا چلن چلتا ہے، گویا یہ کوئی شرعی اُصول اور ثِقہ اُصول تو نہیں مگر فی زمانہ اک عرف ہے، سو اسکے نیک و بد سے اسکی حیثیت کا تعین کیا جاناچاہیئے۔ ہاں مسلم معاشرے میں اک مستحسن ضابطہ اور بھی رائج ہے وہ ’’تلقی بالقبول‘‘،، گویا اُمت کا صالح و اہلِ علم طبقہ خیر کو اخذ کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بالعموم بدَ و ناگوار کو ترک و رَدّ کرتا ہے، اور یہ بات حدیث کے حوالے سے یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میری اُمت کھبی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو گی‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی:) اور اسی مفہوم میں مستدرک حاکم کی بھی روایت سندِ صحیح کے ساتھ موجود ہے۔ سو اس معیاری پہلوکو دیکھیئے تو ڈاکٹر عبدالرحمن کی کتاب کو اک استنادی حیثیت حاصل ہو تی ہے ۔ خاص طور پر اک عمومی پذیرائی اور مقبولیت انکی کتاب کو حاصل ہوئی ہے، جسکا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ میری معلومات کی حد تک پاکستان میں تین مکتبہائے فکر نے اس کتاب کے ترجمہ کو شائع کیا ہے، ان تین تراجم کی اجمالی فہرست یوں ہے:
(۱)سیرتِ تابعین۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور(جماعت اسلامی)
(۲)حیاتِ تابعین کے درخشاں پہلو۔مترجم :محمود احمد غنضنفر۔نعمانی کتب خانہ لاہور(اہل حدیث)
(۳)تابعین رحھم اللہ تعالے کے واقعات۔ترجمہ و تلخیص:محمد حنیف عبدالمجید۔دارالھدٰی کراچی(اہل سنت و الجماعت دیوبند)
اس کتاب میں تذکیری پہلو کو زیادہ مدنظر رکھا گیا ہے، اور مومن اپنی گم شدہ میراث کو جلد ازجلد پانے کے لیے کسی صحرا میں موجود پیاسے کا پانی کے لیے، اور کسی سمندر میں ڈوبتے کا سہارے کے لیے تمنائی سے بھی زیادہ حریص ہونا چاہیئے۔ مقصدِ تالیف صد فی صد پورا ہو،،، اسکے لیے ہمیں بغور کتابِ مذکور کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر اسلاف کی راہ کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ اللہ تعالےٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنی رحمتوں اور نعمتوں(مادی و روحانی) سے بدرجہ اتم سرفراز فرمائے۔
محفل علمی ہے سو جاتے جاتے اک اور نکتہ بھی عرض کر دوں جو اسی کتاب اور اسکے ایک مترجم سے متعلق اک بڑی بحث میں فصیل بھی ہے گو یہ اور بات کہ: یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات۔۔۔دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اس کتاب کے آخری باب میں معتبر و محترم جس ہستی کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’ تمام قفہاء کرام اُنکی( علمی) ذریت و آل ہیں‘‘۔ یعنی وہ سیّدالفقہاء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز ہستی ہے۔ اب ذرا کتاب کا نام ایک بار پھرپڑھیئے کہ کس طبقہ ء اصحابِ ملت کے بارے میں یہ گنجینہ گرانمایہ رقم کیا گیا ہے،جی وہی قدّسی گروہ جو’’تابعین رحھم اللہ تعالے‘‘ کے لقب سے مقلب ہے!،، چناچہ اسی کتاب کے اک مترجم جناب محمود احمد غنضنفر صاحب ہیں جو اپنے مسلک کے مانے ہوئے محقق و ترجمان ہیں گویا وہ بہ زبانِ حال ہی نہیں بلکہ عملاً بھی ’’امام اعظم ‘‘ کی تابعیت کے قائل ہیں ، یا یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں جبھی تابعین پر اس کتاب کو ترجمہ کے لیے منتخب کیا جس میں الحمدللہ حضرۃ الا مام کا تذکرہِ خیر بھی موجود ہے کہ یہ خود دَورِ تابعین رحھم اللہ تعالے کا ’’ نہایت درخشاں پہلو‘‘ ہے ۔کیونکہ محمود احمد غنضنفر کے چند نادان بھائی بند بڑے زور شور سے اس امر واقع کے منکر ہیں اسلیئے ہم انھیں مؤدبانہ مشورہ عرض کرتے ہیں ،ان نشاء اللہ اگر وہ اس پر عمل پیرا ہوں تو اُنھیں اک ولی اللہ کے سے خوا ہ مخواہ کی جو کدورت و بغض ہے (جسکا نتیجہ بمطابقِ صحیح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم :اللہ سے جنگ ہے)کا ازالہ ہو گا ،بس مشور یہی ہے کہ ’’اپنے محقق ، محمود غنضنفر صاحب کی مترجم کتاب پڑھیئے:حیاتِ تابعین کے درخشاں پہلو‘‘ امیدِ واثق ہے اللہ رب العزت سے ،ضرور افاقہ ہوگا۔ ان شاء اللہ